برٹش ایئرویز کا عملہ پی آئی اے سے بھی بڑھ کر

سینئر صحافی طاہر قیوم صاحب کئی دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاحت کے شوقین ہیں اور بیرون ملک کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں وہ یورپ کے دورے پر نکلے۔ اس دوران انہوں نے یورپ کو ایک پاکستانی کی نظر سے دیکھا اور دنیا ٹوڈے کے لئے لکھا ہے۔ یہ سفرنامہ قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

برسلز میں آج میرا آخری دن تھا، سو رات کو سونے سے پہلے ہی اپنا تمام سامان پیک کیا۔ بچوں کے لیے خریدی چیزیں سنبھالنا زیادہ مشکل لگا کہ کہیں راستے میں ٹوٹ پھوٹ کا ہی شکار نہ ہوجائیں، زیادہ پریشانی یہ تھی کہ نگ بڑھ گئے اور انہیں سنبھالنا موت نظر آرہا تھا۔

صبح آنکھ کھلی توکھڑکی کے پردوں سے چھن کر آنے والی چمکدار کرنوں نے موسم خوشگوار ہونے کی نوید سنائی۔ لاؤنج میں تگڑا ناشتہ کرکے اپنا ٹکٹ اور پاسپورٹ سنبھالا اور نکلنے کا سوچا کیونکہ سامان زیادہ تھا اور قاضی مدثر کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق مجھے کوئی ڈیڑھ دو کلومیٹر پیدل برسلز نارڈ پہنچنا تھا، فلائٹ میں کافی وقت تھا، سو دھیرے دھیرے چلتا ریلوے سٹیشن پہنچا، ٹکٹ خریدا تو فاصلے کے مطابق کافی مہنگا محسوس ہوا۔

کاؤنٹر پر بیٹھی سنہرے بالوں والی خاتون تو مجھے سمجھانے میں ناکام رہی لیکن قریب ہی کھڑے ایک جوڑے نے بتایا کہ ائیرپورٹ کا ٹکٹ مہنگا ہی ملتا ہے، کیونکہ حکومت کا ماننا ہے کہ جو جہاز پر سفر کرسکتا ہے، وہ ٹرین کا زیادہ ٹکٹ بھی دے سکتا ہے۔

افسوس بھی ہوا کہ ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر اس نیگرو کی بات کیوں نہ مانی کے سامنے بسیں کھڑی ہیں، ان پر بیٹھ جاﺅ، 4 یورو میں ایئرپورٹ پہنچ جاﺅ گے لیکن شاید میری قسمت میں ٹرین کے 12 یورو دینا ہی لکھا تھا۔

ہر 12 منٹ بعد چلنے والی ٹرین آپ کو 15 کلومیٹر کا فیصلہ تقریباً 20 منٹ میں طے کراتی ہے لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کون سی ٹرین پر بیٹھے ہیں۔

بعض گاڑیاں ہر سٹیشن پر رکتی ہیں، بعض بغیر رکے آپ کو بہت جلد منزل تک پہنچا دیتی ہیں لیکن شہر کی خوبصورتی، کارخانے، وہاں سلیقے سے ہونے والا ترقیاتی کام اور دلکش نظارے آپ کا یہ سفر پلک جھپکنے میں تمام کر دیتے ہیں۔ برسلز ایئرپورٹ کا سٹیشن زیرزمین ہے، یہیں سے آپ کو انٹرنیشنل ٹرینز بھی مل جاتی ہیں۔

منزل پر پہنچ کر سب سے پہلے نکوٹین کی کمی پوری کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے مجھے پہلے برقی سیڑھیوں سے ایئرپورٹ میں داخل ہونا پڑا اور پھر اس سے باہر جانا پڑا۔ سب سے پہلے الیکٹرانک بورڈز پر اپنی فلائٹ کا سٹیٹس چیک کیا، ابھی ساڑھے چار گھنٹے باقی تھے، سو سامان گھسیٹتے گھسیٹتے ہوائی اڈے کی مختلف جگہوں کا معائنہ کیا، پھر چند خواتین کے درمیان خالی کرسی پر براجمان ہوگیا۔

ابھی سانس بھی بحال نہ ہوا تھا کہ ساتھ بیٹھی سینیگال کی ادھیڑ عمر عورت نے بہت سے سوالوں کی بوجھاڑ کردی، کہاں کے ہو؟ کیا کرتے ہو؟ کہاں سے آئے؟  جانا کہاں ہے؟۔ ایک تابعدار بچے کی طرح اس کے سوالوں کے جواب دیئے تو بولی کہ ہمارے ملک میں بہت سے پاکستانی ہیں، بہت امیر لوگ ہیں، فلاں فلاں فلاں۔ آدھا گھنٹہ وہ میرا دماغ چاٹتی رہی تو اٹھنے میں ہی غنیمت جانی۔

اپنے کاﺅنٹر پر پہنچا تو لگا برٹش ایئرویز کی خاتون کی گفتگو سن کر انداز ہوا کہ کہیں میں غلطی سے پی آئی اے کے کاونٹر پر نہیں آگیا، جب اس نے پاسپورٹ مانگا تو حیرانی بھی ہوئی کے شینجن میں پھرتے ہوئے پاسپورٹ کس لیے، خیر اسے پاسپورٹ دیا تو پہلے تو اس نے کمپیوٹر ریکارڈ دیکھ کر نام پر اعتراض کیا کہ ہمارے ریکارڈ میں نام کا پہلا حصہ کچھ اور ہے اور پاسپورٹ پر کچھ اورپھرمجھے آن لائن بکنگ کرنے والی کمپنی کے کاونٹر پر بھیج دیا۔ وہاں بیٹھی بوڑھی عورت اس سے بھی زیادہ غصے والی نکلی اور کہنے لگی کہ یہ کام وہ خود بھی کرسکتی تھی۔ میرے پاس کیوں بھیجا اور پھر برطانوی خاتون کو خوب سنائیں یعنی اس کی پیٹھ پیچھے، نام ٹھیک کروا کر واپس برٹش کے کاونٹر پر آیا تو وہی باری کا چکر، آدھے گھنٹے بعد باری آئی توموصوفہ نے نیا پھڈا ڈال دیا کہ تمہارے تو پاسپورٹ پر برطانوی ویزہ ہی نہیں، تم تو سفر ہی نہیں کرسکتے۔

لاکھ سمجھایا کہ میں کب جا رہا ہوں برطانیہ، میری تو ٹرانزٹ فلائٹ ہے۔ کہنے لگی قانون بدل گیا، تمہیں ٹرانزٹ ویزہ لینا چاہتے تھے۔

ہاں یہ بات اس نے تسلیم کی کہ برٹش ایئرویز کو ویب سائٹ پر بتانا چاہئے تھا کہ ٹرانزٹ فلائٹس کے لیے بھی ویزہ درکار ہے۔ اس چکر میں ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا، بات یہاں ختم ہوئی کہ ٹکٹ کینسل کردو، بولی جہاں سے بکنگ کرائی، وہیں سے کینسل بھی کراو۔

دل تو کیا کہ ایک زوردار چماٹ لگاﺅں لیکن ضبط کرگیا، فلائٹ سے گھنٹہ پہلے ٹکٹ کینسل کرانے کا مطلب آپ کے آدھے پیسے گئے۔ جلدی جلدی موبائل پر بکنگ سائٹ کھولی، ٹکٹ کینسل کرائی تو آدھے پیسے بھی نہ ملے۔

اب مسئلہ تھا کہ پیرس کس طرح پہنچا جائے، پہلے نیچے ریلوے سٹیشن پہنچا تو پتہ چلا کہ ٹکٹ 117 یورو کا ہے، کہا کہ بھائی جہاز کا ٹکٹ 113 یورو کا ہے اور تم ٹرین کے 117 مانگ رہے ہو، بولا آپ آخری وقت پر ٹکٹ خرید رہے ہیں، ٹرین چھوٹنے میں 20 منٹ باقی ہیں۔ ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ سستا ٹکٹ چاہئے تو برسلز واپس جاﺅ اور کوئی بس پکڑ لو۔

حیرت بھی ہوئی کہ ایمسٹرڈیم سے پیرس کا کرایہ 89 یورو تھا اور آدھے سفر یعنی برسلز سے پیرس کا 117 یورو، خیر ٹکٹ چھوڑ کر پہلے برسلز جانے کی ٹھانی۔

ایئرپورٹ سے باہر نکلا تو پہلے بس ڈھونڈنے میں مشکل پیش آئی، پھر سوچا کہ پہلے برسلز واپس جا کر انٹرنیشنل بس سٹینڈ ڈھونڈوں گا، پھر پتہ نہیں ٹکٹ کب کا ملتا ہے، اتنا سارا سامان، ناں بھائی ناں، طاہر قیوم تو واپس چل اور اسی ٹرین میں بیٹھ جا۔

 

دوبارہ گھوم پھر کر ریلوے کاﺅنٹر پر پہنچا تو مجھے دیکھتے ہی ٹکٹ وینڈر طنزیہ طور پر مسکرایا اور کہا کیوں کیا پھر ارادہ بدل گیا۔ خیر ٹکٹ لیا اور انڈرگراونڈ سٹیشن پر آگیا، چند ہی لمحے میں ٹرین بھی آگئی۔ ایمسٹرڈیم اور پیرس کے درمیان چلنے والی ہائی سپیڈ تھالے ٹرین کا سفر بھی شاندار تھا، ٹرین بھی ایک جہاز جیسی تھی، سپیڈ بھی ایسی جیسے ہوا میں اڑ رہی ہو اور سکوت ایسا کہ جیسے اس کے پہیے زمین پر نہیں چل رہے۔

جس کوچ میں مجھے کنڈکٹر نے بٹھایا، اس میں مجھ سمیت کوئی چار، پانچ لوگ ہی ہوں گے، اندر ریسٹورنٹ بھی تھا اور بار بھی اپنے اور یورپی ریلوے نظام کا موازنہ کرتا رہا اور باہر کے خوبصورت نظارے بھی دیکھتا رہا، انٹرنیشنل اور انٹرسٹی ریلوے کے الگ ٹریک تھے، چند منٹ کے وقفے سے لاتعداد گاڑیاں دوسرے ٹریک سے گزرتے دیکھیں۔

ہمارے ملک کی طرح ٹرین کو کوئی کراس بھی نہ پڑا، اس لئے ٹرین جس تیزی سے روانہ ہوئی تھی، اس سے بھی برق رفتاری سے اڑتی چلی جارہی تھی۔ دو تین مقامات پر پیرس سے آنے والی ٹرینیں ضرور براستہ برسلز، ایمسٹرڈیم جاتے گزریں۔ عام ٹرین سے تو سفر لگ بھگ 2 گھنٹے کا تھا لیکن تھالے ٹرین نے یہ سفر ایک گھنٹے سے کم میں وقت میں طے کرلیا۔

ایئرپورٹ سے ہاسٹل پہنچنا بھی ایک مشکل ٹاسک رہا، غلطی بھی اپنی ہی تھی کہ ٹرین میں انٹرنیٹ تھا تو باہر کے نظارے دیکھتے ہوئے اپنی منزل موبائل میں فیڈ کرنا بھول گیا، اب سٹیشن پر پریشانی کے بھائی جاوں کہاں، اینڈرین کی بات تو یاد تھی کہ ایم 4 پر بیٹھ جانا، پر سٹاپ یاد نہ تھا، جس سے پوچھو، وہ اصل سٹاپ کا سوال کرے، جس کا میرے پاس جواب نہ تھا، ٹکٹ والی دوشیزہ بھی بار بار ہوسٹل کا نام بتا کر ٹکٹ مانگنے پر چڑ گئی۔ کہا کہ میں ٹکٹ بیچ رہی ہو، لوگوں کو راستے نہیں بتا رہی۔

یہاں بھی ایک بوڑھی عورت میرے لیے فرشتہ ثابت ہوئی جس نے مجھے بتایا کہ مونٹاپارس کا ٹکٹ لے لو، تمہارا ہوسٹل وہیں کہیں قریب ہے۔ ٹکٹ لے کر میٹرو میں بیٹھا تو سارے راستے ٹرین کے سٹاپ ہی دیکھتا رہا۔ وہاں ہر ٹرین یا میٹرو میں آپ کے آنے والے سٹاپ کا نام سکرین پر لکھا آجاتا ہے اور اگلے سٹاپس کے بارے میں بھی لکھا ہوتا ہے۔ کوئی 20منٹ بعد مونٹاپاس سٹیشن سے باہر آیا توپھر ہاسٹل کی تلاش سب سے بڑا معرکہ، کئی افراد سے پوچھا، آخر ایک نوجوان نے مجھے اشاروں سے سڑکیں بتائیں کہ فلاں جگہ سے دائیں بائیں مڑنا۔

اتنا سامان اور میری ٹانگیں شل، کوئی ڈھائی کلومیٹرچلنے کے بعد آخر ہاسٹل مل ہی گیا۔ جہاں ضروری انٹریز کے بعد سب سے پہلے آرام کے لیے بستر پر دراز ہوگیا۔ (جاری ہے)

اس سے پہلے کے حصے

پاکستان کے سیاسی حالات، تارکین بھی پریشان

مسلمان ہیں، پر درد دل نہیں

تارکین وطن شور بہت کرتے ہیں

یورپی پارلیمنٹ میں ملالہ

پراسیچیوٹ ہوں، چلو گے؟

ٹینا کے انکشافات

سفر یورپ: دیسی اسٹائل

کتوں کیلئے فٹبال گراؤنڈ

ایمسٹرڈیم سے برسلز

برسلز:سیکیورٹی کراچی، علاقہ اسلام آباد سا

روٹرڈیم کی سیر

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: