یورپی پارلیمنٹ میں ملالہ

سینئر صحافی طاہر قیوم صاحب کئی دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاحت کے شوقین ہیں اور بیرون ملک کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں وہ یورپ کے دورے پر نکلے ہوئے ہیں۔ اس دوران انہوں نے یورپ کو ایک پاکستانی کی نظر سے دیکھا اور دنیا ٹوڈے کے لئے لکھا ہے۔ یہ سفرنامہ قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

برسلز کا جیکوس برل ہاسٹل بھی کمال کی جگہ پر ہے، جس کے اردگرد ہی آپ کو بہت سے اہم مقامات، آمدورفت کے ذرائع اور شاپنگ ایریاز مل جاتے ہیں۔

8 گھنٹے کی بے سدھ نیند کے بعد صبح آنکھ کھلی تو ٹھنڈی ہوا کے ساتھ چمکتی دھوپ نے استقبال کیا، کھڑکی کے باہر کا منظر بھی آنکھوں کو بہت بھلا لگا۔

ڈائیننگ ہال میں بھرپور ناشتہ کرکے نیٹ پر سرفنگ کی تو پتہ چلا کہ بیلجیم کا تاریخی شاہی محل تو پڑوس میں ہی ہے۔ سو سب سے پہلے وہیں جانے کی ٹھانی۔

نہا دھو کر سڑک پر آیا تو دور سے ہی ایک پرشکوہ عمارت نظر آئی، اندر جانا چاہا تو گارڈ نے اشارے سے روک لیا، اسے اپنا مطمع نظر بتایا تو اس نے بھی مجھے مسکرا کر جواب میں کچھ کہا، جو میرے سر سے گزر گیا۔ اسے میری پریشانی کا احساس ہوا تو ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بورڈ کی طرف اشارہ کردیا، جس پر لکھا تھا کہ منڈے ٹو فرائڈے 9 ٹو 4، سیچرڈے۔ سنڈے کلوز۔

غصہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا کہ کل برسلز پہنچ کر پہلے یہاں کیوں نہیں آیا، آج تو ہفتہ ہے، خیر کیا کرسکتا تھا، باہر سے گھوم پھر کر رائل پیلس کا معائنہ کیا اور ایک بڑے بورڈ کو پڑھ اس شاہی محل کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی۔

معلوم ہوا کہ یہ محل اب شاہی خاندان کی رہائش گاہ نہیں، البتہ ان کے دفاتر یہاں موجود ہیں، یہیں پر تمام غیرملکی وفود سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، کابینہ کے اجلاس بھی ہوتے ہیں اور معاہدے بھی۔

محل کی پہلی عمارت گیارہویں صدی میں بننا شروع ہوئی اور بارہویں صدی میں ختم ہوئی جبکہ موجود عمارت 1900ء میں شاہ لیوپولڈ دوم نے تعمیر کرائی۔

33 ہزار مربع میٹر سے زائد پر بنا یہ محل، ملکہ برطانیہ کے بکنگھم پیلس سے 50 فیصد بڑا ہے، تاہم تعمیری حصہ بکنگھم پیلس سے کم ہے۔ تقریباً ایک صدی میں مکمل ہونے والے اس محل کی تعمیر میں 6 آرکیٹیکٹس کا ہاتھ ہے۔

رائل پیلس کے بعد میری اگلی منزل تھی یورپین پارلیمنٹ، جہاں پہنچنے کے لیے طویل مسافت کے باعث مجھے انڈرگراؤنڈ میٹرو ٹرین کا سہارا لینا پڑا۔ زمین سے باہر آیا تو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے باعث منزل ڈھونڈنے میں پریشانی ہوئی، بہت سوں سے پوچھا لیکن پھر زبان کا مسئلہ۔

ایک افریقی جوڑے نے سامنے کھڑی بس میں سوار ہونے کا مشورہ دیا، بھاگم بھاگ بس میں سوار ہوا، ڈرائیور سے یورپی پارلیمنٹ کا ٹکٹ مانگا تو بھلا ہو، اس کا کہ فوری بریک پر پاﺅں رکھا اور بتایا کہ بھائی بس تو یہی ہے، پر آپ کی سمت غلط ہے، دوسری طرف جانے والی بس میں بیٹھو۔

شکریہ ادا کرکے نیچے اترا تو پہلے بس کے انتظار میں کھڑا ہوگیا، پھر چودھری شجاعت کا فقرہ یاد آیا کہ مٹی پاﺅ اور اندازے سے ہی ایک طرف چلنا شروع کردیا، دونوں اطراف دفاتر، ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں کو دیکھتا ابھی چند قدم ہی گیا تھا کہ سامنے ایک خوبصورت چوراہا دیکھا، سامنے نصب مجسمے اور عمارت کو اپنے موبائل کے کیمرے میں قید کرہی رہا تھا کہ ساتھ لگے بورڈ پر نظر پڑی، جس پر لکھا تھا کہ یورپین پارلیمنٹ، پھر غصہ بھی آیا کہ بھلا کوئی یہی بتا دے کہ بھائی سامنے چند قدم چلے جاﺅ، فضول میں بس پر سوار کرایا۔

یہاں بھی پھر کراچی والا منظر، یعنی فوج اور سکیورٹی اہلکاروں کی بھرمار، قدم اس عمارت کی طرف بڑھے، سیڑھیاں چڑھ کر آگے پہنچا تو یورپی پارلیمنٹ کے دفاتر، کانفرنس روم اور جانے کیا کیا تھا۔

اس عمارت کے فوری بعد پھر کھلا آسمان آگیا، جہاں گولائی میں بہت سے عالمی لیڈروں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں، انہی تصاویر میں سے ایک تصویر ملایوسف زئی کی بھی تھی، جسے دیکھ کر لہو نے جوش مارا، اور جو خوشی ہوئی، وہ بیان سے باہر ہے۔ ملالہ سے بعض اختلافات کے باوجود ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میرا سر فخر سے بلند ہوگیا۔

سامنے ایک دوسری عمارت تھی، اس کی سیڑھیاں اترا توسامنے اپنے خوابوں کی تعبیر یعنی یورپی پارلیمنٹ کی عمارت نظر آئی، یورپی پارلیمنٹ شاید دنیا کی واحد پارلیمنٹ ہے، جہاں کوئی بھی سیاح اندر جاسکتا ہے، جس کے لیے انہیں نہ صرف مکمل سہولتیں دی جاتی ہیں بلکہ ایک گائیڈ آپ کو پوری عمارت کی سیر کرانے کے علاوہ پارلیمنٹ، اس کی کارروائیوں اور دیگر ایشوز پر معلومات فراہم کرتا ہے، لیکن یہاں بھی شومئی قسمت ہفتے اتوار کی چھٹی آڑے آگئی۔

بس بند دروازوں کے سامنے فوجی الرٹ کھڑے نظر آئے۔ دیگر سیاحوں کی طرح ارد گرد گھوم کر پارلیمنٹ کے پارک کی سیر اور نصب بورڈز پر لکھی معلومات پر ہی اکتفا کیا۔

جرمنی کی دیوار برلن تو نہ دیکھ سکا لیکن یورپی پارلیمنٹ کے باہر نصب اس دیوار کے ٹکڑے کو دیکھ کر اور اسے ہاتھ لگا کر خود کو خوش نصیب افراد میں شامل کرلیا۔ (جاری ہے)

سفرنامے کے پہلے حصے

برسلز:سیکیورٹی کراچی، علاقہ اسلام آباد سا
سفر یورپ: دیسی اسٹائل

کتوں کیلئے فٹبال گراؤنڈ

ایمسٹرڈیم سے برسلز

پراسیچیوٹ ہوں، چلو گے؟

ٹینا کے انکشافات

تارکین وطن شور بہت کرتے ہیں

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: