برسلز: سیکیورٹی کراچی، علاقہ اسلام آباد سا

سینئر صحافی طاہر قیوم صاحب کئی دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاحت کے شوقین ہیں اور بیرون ملک کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں وہ یورپ کے دورے پر نکلے ہوئے ہیں۔ اس دوران انہوں نے یورپ کو ایک پاکستانی کی نظر سے دیکھا اور دنیا ٹوڈے کے لئے لکھا ہے۔ یہ سفرنامہ قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

روٹرڈیم سے ٹرین چلی تو وہی سرسبزو شاداب مناظر، انتظار تھا کہ کب ٹرین بیلجیم کی سرحد پر پہنچے گی اور چیکنگ ہوگی، جس کے لیے میں نے اپنا

پاسپورٹ بھی نکال کا اوپر کی جیب میں ڈال لیا لیکن نہ ٹرین رکی نہ کوئی چیکنگ کے لیے آیا۔

وہ تو ذرا باہر کا منظر بدلا تو اپنا موبائل نکال کر گوگل میپ چیک کیا کہ یہ کون سا علاقہ ہے، پتہ چلا کر سفر تو اب بیلجیم میں جاری ہے۔

یورپ میں یہ بات اچھی لگی کہ آپ جنگل میں ہوں یا پہاڑوں پر آپ کو اپنے موبائل پر بغیر انٹرنیٹ کے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا علاقہ ہے اور کدھر کو جانا ہے۔

ہمارے ہاں شاید یہ سہولت چند شہروں کے چند مقامات تک ہی محدود ہے۔ بیلجیم کا سرحدی علاقہ نیدر لینڈ کے مقابلے میں پسماندہ ہے، نیدرلینڈ میں ہر جگہ خوبصورت ہے، جیسے ہر چیز قرینے سے رکھی گئی ہو لیکن بیلجیم میں کی حد میں داخل ہوتے ہی واہگہ کے علاقے کا احساس ہوا۔

چند کلومیٹر کے بعد منظر ترقی یافتہ لگا۔ برسلز نارڈ سٹیشن پر اترا تو باہر نکل کر لگا کہ جیسے کراچی آگیا ہوں کیونکہ ہر طرف فوج الرٹ کھڑی نظر آئی۔

کہیں گاڑیاں فلیگ مارچ کررہی تھی اور کہیں جوان بڑی بڑی گنیں اٹھائے ہر آنے جانے والے کو عقابی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

ہلکا سا خوف بھی محسوس ہوا لیکن پھر ہوسٹل تک پہنچنے کے لیے اپنے موبائل کی مدد سے بھاری بھر کم سامان اٹھائے چلنا شروع کیا کیونکہ ہاسٹل بظاہر قریب ہی تھا لیکن یہ نزدیک ترین راستہ اس وقت طویل ہوگیا جب اونچے نیچے راستوں نے ٹانگیں شل کردیں۔

برسلز بھی ہمارے اسلام آباد جیسا ہے جہاں کی سڑکیں کبھی اوپر اور کہیں نیچے کو جاتی ہیں۔ اللہ اللہ کرکے ہاسٹل پہنچا تو جان میں جان آئی۔ کمرے میں جاکر کچھ آرام کیا، خود ہی اپنے پاوں اور ٹانگیں دبائیں اور اگلی پلاننگ شروع کردی۔

وقت کم تھا اور مقابلہ سخت جیسی صورت حال تھی، موبائل پر سرفنگ کرکے اہم اہم مقامات مارک کئے اور ایک بار پھر اونچے نیچے راستوں کو اپنے پاﺅں تلے روندتا آگے بڑھنے لگا اور منزل تھی برسلز چاکلیٹ ویلیج۔

برسلز کی خوبصورتی اور سسٹم کو دیکھ کر خودکلامی کرتا لمبی واک کے بعد چاکلیٹ ویلج کے قریب پہنچا تو ویلج گم ہوگیا، یہ تارکین وطن کا علاقہ ہے، سب سے پوچھا کہ بھائی میری منزل تلاش کردو، لیکن کوئی جانے تو بتائے نا۔

موبائل کی بیٹری بھی ختم کہ جی پی ایس پر چیک کرلوں۔ تھک ہار کر اپنے ہی اپنے آپ پر بھروسہ کرتا چلنا شروع کیا تو چند قدم پر ہی ایک بڑی عمارت کے اوپر چاکلیٹ ویلج لکھا نظر آیا، لوگوں کی لاعلمی پر شدید غصہ آیا کہ بھائی پڑوس میں رہتے ہوئے، وہیں کاروبار کرتے ہوئے بھی چاکلیٹ ویلج کا معلوم نہیں لیکن منزل پر پہنچنے کی خوشی سے اس غصے کو ہرن کردیا۔

سفرنامے کے پہلے حصے

سفر یورپ: دیسی اسٹائل

کتوں کیلئے فٹبال گراؤنڈ

ایمسٹرڈیم سے برسلز

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: