مسلمان ہیں، پر درد دل نہیں

سینئر صحافی طاہر قیوم صاحب کئی دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاحت کے شوقین ہیں اور بیرون ملک کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں وہ یورپ کے دورے پر نکلے ہوئے ہیں۔ اس دوران انہوں نے یورپ کو ایک پاکستانی کی نظر سے دیکھا اور دنیا ٹوڈے کے لئے لکھا ہے۔ یہ سفرنامہ قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

یورپی پارلیمنٹ دیکھ کر اردگرد کے ماحول کا جائزہ لے رہا تھا کہ اچانک نظر سڑک کنارے جوتوں کے ڈھیر پر پڑی، جو دور، دور تک بے ترتیب انداز میں پڑے تھے، اور ان میں چھوٹی چھوٹی جھنڈیوں پر کچھ نہ کچھ لکھا تھا۔

دو خواتین مزید جوتے رکھ کر ان میں تحریر شدہ جھنڈیاں لگانے میں مصروف تھیں جبکہ کچھ قریب ہی بیٹھی تھیں۔ تجسس ہوا کہ یہ ہے کیا؟ اور کس لئے ہے؟۔

گھوم پھر کر دیکھا تو کسی جھنڈی پر آئی لو سیریا، آئی لو مائی فیملی، ریمیمبر میں ان پریئرز، ڈونٹ سٹاپ دیم جیسے فقرے لکھے نظر آئے۔ کچھ سمجھ نہ آیا تو اس خاتون سے پوچھا کہ یہ ماجرا کیا ہے؟۔ جو جواب آیا، اس سے حیرانی بھی ہوئی اور ان لوگوں کے لیے دل میں محبت کا احساس بھی پیدا ہوا۔

کھیترین کا کہنا تھا کہ یہ خاموش احتجاج ہے۔ یورپی یونین کے ان حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے، ان کا ضمیر جھنجوڑنے کے لیے، جو تارکین وطن اور مہاجرین کی آمد میں رکاوٹ بنے بیٹھے ہیں۔

اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ مظلوم ہیں، ان کے ماں باپ قتل ہورہے ہیں، یہ بھوکے مر رہے ہیں، ان کی عورتوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں، آخر کیا قصور ہے ان کا؟، برطانیہ اور فرانس نے ان لوگوں کو پیچھے دھکیلنے اور ان کا راستہ روکنے کے لیے اتحاد کیا ہوا ہے۔

 

پھر اینگلا مرکل اور تھریسامے اور ان کے پیش رو کے کے بارے نفرت انگیز الفاظ کا استعمال۔ کیتھرین کا کہنا تھا کہ یہ لوگ جلاد ہیں، یہ لوگ برے ہیں، انہوں نے پوری یورپی یونین پر دباﺅ ڈال رکھا ہے، سب ممالک ان مہاجرین کو واپس ترکی دھکیل دیتے ہیں، جہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔

کیتھرین کی باتیں سن کر میں بھی آبدیدہ سا ہوگیا، اس نے میری خواہش پر تصویر بھی بنوائی۔ دیگر لوگ بھی آکر اتنے جوتے دیکھ کر حیران تھے، سب کو ہی تجسس تھا، کسی کو میں نے بتایا، کسی کو کیتھرین اور اس کے دوسرے ساتھیوں نے گائیڈ کیا۔

احساس ہوا کہ کیا ہم مسلمان ہیں؟، جن اسلامی تعلیمات پر ہم عمل نہیں کرتے، یہ بے دین ہی ہم سے اچھے ہیں، جن کے دل میں انسانیت کا درد ہے اور یہ لوگ یورپی پارلیمنٹ کے سامنے اپنی آواز اٹھا رہے ہیں۔

کیتھرین کی باتیں سن کرمیرے ضمیر نے بھی مجھے جھنجھوڑا اور میں نے بھی جوتے رکھ کر ان میں جھنڈیاں لگانے کے کام میں کیتھرین کا ہاتھ بٹایا کیونکہ اس سے زیادہ میں اور کر بھی کیا سکتا تھا؟۔

کچھ دیر ان اچھے لوگوں کے ساتھ گزار کر میں افسردہ افسردہ سے آگے بڑھ گیا۔ اس کے بعد مزید تاریخی عمارتیں مجبورا صرف باہر سے ہی دیکھیں کیونکہ وہی ہفتہ اتوار کی چھٹی آڑے آگئی۔

پھر راستہ یاد کرتا ایک کمرشل ایریا میں پہنچ گیا، کوئی گھنٹہ بھر درجنوں دکانوں میں مختلف اشیا کی قیمتوں کا جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ برسلز تو ایمسٹرڈیم کے مقابلے میں کافی سستا ہے۔

تقریبا تمام کی دکانوں پر 50 فیصد سیل کے باوجود یہ قیمتیں نیدرلینڈ سے کم نظر آئیں۔ موقع غنیمت جان کر کچھ بال بچوں کے لیے وہ اشیا بھی خرید لیں، جو ان کی خواہش کے باوجود ایمسٹرڈیم سے نہ خرید سکا تھا۔

ایک بار جو نیدرلینڈ کے بعد بیلجیم میں بھی نظر آئی، وہ یہ کہ وہاں عوام میں ’رول آف لا‘ کی پاسداری زیادہ ہے۔ لاقانونیت تو دور کی بات، دکانوں پر اشیا کی خریداری کے بعد بل کی ادائیگی بھی اپنی باری آنے پر ہی کی جاتی ہے، نہ کہ ہماری طرح بے ہنگم انداز میں۔

کسی چیز کا معلوم کرنا ہو تو یہ نہیں کہ دور سے آواز لگا کر پوچھ لیا، آپ کو جتنی بھی جلدی ہو، دکاندار آپ کو آپ کی باری آنے پرہی انٹرٹین کرے گا، البتہ آپ نے پھر بھی سمارٹ بننے کی کوشش کی تو دکاندار نہایت احترام سے آپ کو اپنی باری کے انتظار میں قطار میں کھڑے ہونے کا کہہ دے گا۔

ریلوے سٹیشن ہو، ایئرپورٹ ہو، کوئی دکان ہو یا کوئی بھی جگہ، کاونٹر سے پہلے ایک لکیر کھنچی نظر آتی ہے، جہاں آپ کو کھڑا ہونا پڑتا ہے، آپ سے آگے والا فارغ ہو گا تو آپ وہ لکیر عبور کرکے آگے جاسکے ہیں۔

ایک مشکل یا مسئلہ جو مجھے نظر آیا وہ یہ تھا کہ بس ہو یا ٹرین یا انڈرگراونڈ میٹرو آپ کے پاس ٹوٹے پیسے (کوائن) ہونا لازمی ہے۔

اکثر مقامات پر تو ٹکٹ کاﺅنٹر موجود ہیں لیکن زیادہ تر سٹیشنز پر ٹکٹ مشینز لگی ہیں جس میں کوائن ڈالیں اور ٹکٹ حاصل کرلیں۔

اگر ایک یورو 90 سینٹ کا ٹکٹ ہے تو آپ کو گن گن کر اتنے ہی پیسے ڈالنے پڑتے ہیں۔ اگر 2 یورو کا سکہ ڈال دیا تو مشین آپ سے مزید پیسے مانگے گی، کیونکہ اس کے مطابق آپ نے کہیں دور جاتا ہے اور وہاں کا ٹکٹ چاہئے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے مجھے مختلف سٹیشنز پر آنے جانے والے لوگوں سے سکے دینے تو سکوں کی چینج دینے کی درخواست کرنا پڑی۔

ایک مخصوص روٹ پر آپ جتنی چاہیں میٹرو بدلیں یا بس میں بیٹھیں کوئی روک ٹوک نہیں البتہ ٹکٹ آپ کو اپنی منزل تک سنبھال کر رکھنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے بغیر آپ کا گیٹ نہیں کھلتا۔ آپ کو ہر سٹاپ پر یہ ٹکٹ مشین سے گزارنا پڑتا ہے لیکن کچھ ایشیائی اور افریقی ایسے بھی دیکھے جو نظر بچا کر گیٹ پر سے چھلانگیں لگا کر گزر گئے جنہیں دیکھ کر نہ صرف لوگوں کے چہروں پر ناگواری دیکھی بلکہ میں نے خود میں بھی شرمندگی محسوس کیا کہ نے ایشیائی قوانین کو اپنے گھر کی لونڈھی سمجھتے ہیں۔ (جاری ہے)

سفرنامے کے پہلے حصے

برسلز:سیکیورٹی کراچی، علاقہ اسلام آباد سا
سفر یورپ: دیسی اسٹائل

کتوں کیلئے فٹبال گراؤنڈ

ایمسٹرڈیم سے برسلز

پراسیچیوٹ ہوں، چلو گے؟

ٹینا کے انکشافات

تارکین وطن شور بہت کرتے ہیں

یورپی پارلیمنٹ میں ملالہ

 

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: