تارکین وطن شور بہت کرتے ہیں

سینئر صحافی طاہر قیوم صاحب کئی دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاحت کے شوقین ہیں اور بیرون ملک کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں وہ یورپ کے دورے پر نکلے ہوئے ہیں۔ اس دوران انہوں نے یورپ کو ایک پاکستانی کی نظر سے دیکھا اور دنیا ٹوڈے کے لئے لکھا ہے۔ یہ سفرنامہ قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

برسلز کا تاریخی اٹومیم دیکھنے کے بعد ہوسٹل پہنچا تو تھکاوٹ سے برا حال تھا، کچھ دیر آرام کے لیے بستر پر لیٹا تو پتہ ہی نہ چلا کہ کب رات کی تاریکی گہری ہوگئی۔

بھوک کی شدت سے آنکھ کھلی تو 9 بجے دیکھ کر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، ہاتھ ، منہ دھو کر نیچے آیا۔ سوچا چلو پھر سینٹرم جایا جائے، پیٹ کی آگ بھی بجھا لوں گا اور برسلز کی نائٹ لائف کا بھی کچھ نظارہ ہوجائے گا۔

ابھی سگریٹ کے کش لیتا گلی مڑا ہی تھا کہ سماعت سے ایک آواز ٹکرائی، ہائے، انڈین آر پاکستانی؟۔ گردن گھما کر دیکھا تو ایک کسرتی بدن والا ایشیائی نوجوان نظر آیا۔ مصافحہ کیا تو اس نے چھوٹتے ہی سگریٹ پلانے کی خواہش کا اظہار کردیا، ساتھ ہی اشارہ کرکے بتایا کہ یہ لوگ سو رہے ہیں۔ پوچھا کون؟ جواب آیا کہ یہ جو اندر بند ہیں۔ غیرقانونی طور پر بیلجیم آنے والے افراد۔

دھوئیں کے بگولے اڑاتے باتیں شروع ہوئیں تو اس نے بتایا کہ وہ مسلمان ہے، تیونس اس کا ملک ہے، اور یہاں اس کی ڈیوٹی ایک سکیورٹی گارڈ کی ہے۔ سگریٹ کی طلب ہو رہی تھی، مارکیٹ دور ہے اور وہ یہ جگہ چھوڑ کر جانہیں سکتا۔

باتوں باتوں سامنے آہنی گیٹ کے درمیان لگے بلٹ پروف شیشے پر نظر پڑی جس پر جابجا دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہ لوگ یہاں سے فرار ہونا چاہتے ہیں، گیٹ تو توڑ نہیں سکتے، البتہ اس بیچارے شیشے پر ضرور طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔

عبدل تھا تو برسلز میں لیگل لیکن لگا کہ اسے بھی شہری سے کچھ زیادہ شناسائی نہیں۔ اس بات کا اندازہ اس وقت ہوا جب اس نے میری شکل دیکھ کرکہا کہ تھکے ہوئے لگتے ہو تو میں نے بتایا کہ ہاں دوپہر کو ہی ایمسٹرڈیم سے برسلز پہنچا ہوں اور پھر سارا دن کی سیر کے بعد تھکنا ہی تھا، اسے سے کہا پوچھا کہ کوئی مساج سنٹر ہے قریب تو اس نے کہا کہ معلوم نہیں البتہ سینٹرم چلے جاﺅ، شاید وہاں مل جائے۔

سو اسے تین چار مزید سیگریٹ تھما کر اجازت چاہی تو اس نے تشکرانہ آنکھوں سے مصافحہ کرکے مجھے رخصت کردیا۔

چلتے ہوئے احساس ہوا کہ قدم پوری طرح جم کر نہیں رکھے جارہے، اوپر سے سونے پر سہاگہ، تیز چلتی سرد ہوا۔ خیر دس منٹ میں سینٹرم پہنچ گیا جہاں زندگی اپنی پوری آب و تاب سے رواں دواں تھی، کافی تلاش کے باوجود مساج سنٹر نہ مل سکا تو تھک ہار کر ایک بار سے کوک کا ٹن لیا اور بارکے باہر لگی کرسی پر براجماں ہوگیا۔

کافی دیر تک لوگوں کے رویے، چال چلن اور اردگرد کا ماحول دیکھتا رہا اور آنکھیں بھی ٹھنڈی ہوتی رہیں۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد سوچا کہ بہت آوارہ گردی ہوگئی، چلو اب کچھ پیٹ پوجا ہی کرلوں۔

پورے سینٹرم میں جابجا بلکہ قطاروں میں ریسٹورنٹس تھے لیکن وہی حلال، حرام کا مخمصہ، جو اشیا لکھی اور پڑی دیکھیں، ان کے بارے میں فیصلہ نہ کرسکا، سو پھر سے کوئیک مارچ شروع ہوگیا۔ چلتے چلتے ایک جگہ کافی رش دکھائی دیا، جوں جوں آگے بڑھا تو موسیقی کی آواز تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ قریب پہنچ کر دیکھا کہ تین چار افریقی نوجوانوں نے تماشا لگا رکھا ہے۔ جو میوزک لگا کر بریک ڈانس اور زمین پر قلابازیاں لگانے میں مصروف ہیں اور سینکڑوں تماشائی داد دیئے جارہے ہیں۔ پھر سڑک پر رکھی الٹی ٹوپی دیکھ کر سمجھ آئی کہ یہ بھی بھیک یا پیسے کمانے کا ایک ذریعہ ہے۔ جس کا جتنا دل کرتا، اس ٹوپی میں سکے اچھال دیتا۔

 

حلال کھانے کی تلاش میں کافی لڑکیوں سے ملاقات ہوگئی، یورپین، افریقی، چینی، تھائی، ایشین لڑکیاں جو اپنا سب کو حوالے کرنے کے لیے بے تاب نظر آتی تھیں، کسی کو ہائے کا جواب ہائے سے دیا، کسی کو ہنس کر ٹال دیا۔ کسی کا دل رکھنے کے لیے بارگینگ تک کی، کسی کو سیدھا نو کہتا آگے بڑھ گیا اور کسی کو واپس آنے کا دلاسہ دے کر جان چھڑائی، ہاں ایک بات جو محسوس کی کہ جوں جوں رات ڈھلتی جارہی تھی، 50 یورو مانگنے والی کم ریٹ پر بھی چلنے کو تیار ہوتی جارہی تھیں، البتہ جن کو اپنے حسن اور جسم پر ناز تھا، ان کے نخرے برقرار تھے۔

رائل فاسٹ فوڈ نامی ایک ریسٹورنٹ کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس کے بورڈ پر نظر پڑی پاکستانی اور انڈین فوڈ لکھا دیکھ کر شکر ادا کیا ۔ اندر داخل ہوا تو کاونٹر پر کھڑے شخص پر ایشین ہونے کا گمان ہوا، پوچھا حلال ہے، ہاں میں جواب پر جو سامنے پڑا نظر آیا، آرڈر دیا اور بل دے کر میز پر جا بیٹھا، سامنے پاکستانی ٹی وی چینلز دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، اردگرد کے لوگوں کو دیکھا تو کچھ اپنے اپنے سے لگے، پتہ چلا کہ یہ پاکستانی کا ریسٹورنٹ ہے اور گاہکوں کی اکثریت بھی پاکستانی ہے۔

کھانا کھاتے ٹی وی دیکھ کر یاد آیا کہ آج تو عمران خان نے رائے ونڈ کا گھیراﺅ کرنا تھا، جو اپنے اگلے احتجاج کا اعلان کرکے کب کے واپس جاچکے ہیں۔ جس وقت ٹی وی پر روایتی پاکستانی ٹاک شو سن اور دیکھ رہا تھا، اس وقت پاکستان میں رات کے ڈھائی تین بج چکے تھے۔

میں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو 12 بجنے والے تھے، جلدی جلدی اپنا کھانا ختم کیا اور کاونٹر والے پاکستانی سے چند باتیں کیں ،،، پھر اسے کل دوبارہ آنے کا کہہ کر اپنے ہوسٹل کی راہ لی۔

سفرنامے کے پہلے حصے

برسلز:سیکیورٹی کراچی، علاقہ اسلام آباد سا
سفر یورپ: دیسی اسٹائل

کتوں کیلئے فٹبال گراؤنڈ

ایمسٹرڈیم سے برسلز

پراسیچیوٹ ہوں، چلو گے؟

ٹینا کے انکشافات

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: