پاکستان اور امریکا کے تعلقات حالیہ دنوں میں تناو کا شکار ہوئے ہیں جبکہ بھارت کےلیےامریکی گرم جوشی میں اضافہ ہوا ہے۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ نوشکی ڈرون حملے کے بعد پاکستان اور امریکا کے باہمی اعتماد میں کمی آئی ہے ، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری خارجہ نے کھل کر کہا کہ امریکا کے کہنے پر ہم نے مذاکرات شروع کرائے تو ڈرون حملہ کر کے امریکا نے یہ مذاکرات متاثر کر دئیے۔
ادھر بھارتی وزیراعظم نے امریکی کانگریس سے خطاب کر ڈالا ، مودی نے نام لیے بغیر پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور امداد روکنے پر نہ صرف کانگریس کی خوب تعریف کی بلکہ اس سے بڑھ کر اقدامات کا مطالبہ بھی کیا۔
اس سے پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ اور سرد جنگ کی وجہ کشمیر کو قرار دیا جاتا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ افغانستان ، دونوں ملکوں کے درمیان تنازع کی اہم وجہ بنتا جا رہا ہے۔کابل میں کس کی حامی حکومت ہو گی، یہ پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے اہم ہے۔
اس صورتحال میں امریکا کی پاکستان کی نسبت بھارت سے بڑھتی قربت یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکی انتظامیہ کو افغانستان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی سے اتفاق نہیں،وہ طالبان کا ہر صورت خاتمہ یا انہیں اس حد تک کمزور کرنا چاہتا ہے کہ وہ کابل میں امریکا کی پسندیدہ حکومت کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔
افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے اپنے تحفظات ہیں ، وہ اپنی مغربی سرحدوں پر دشمن نہیں دیکھنا چاہتا،یوں سویت یونین کے حملے کے بعد سے پاکستان افغان جنگ میں الجھا ہوا ہے ، اس جنگ میں ہمیں فائدے سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے اور یہ ریاستی اداروں کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہم آئندہ بھی یہ نقصان اٹھانے کو تیار ہیں یا ہمیں اپنی پالیسی بدلنا ہو گی۔