جیمز ڈین سلو
شام کا بحران دن بد دن بد سے بد تر ہو رہا ہے۔ چارو اطراف مسلح گروہ موجود ہیں، ان میں پھنسی شام کی عوام کے لئے ہر دن قیامت سے کم نہیں۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ شام کے عوام ایک طوفان میں پھنسے ہوئے ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔
شامی اب جنوب کا سفر نہیں کر سکتے۔ اردن پر حملے کے بعد انہوں نے شام کی سرحد کو فوجی زون قرار دے دیا ہے۔ جہاں سےکوئی بھی اندر داخل نہیں ہو سکتا۔ اردن نے اعلان کیا ہے کہ نہ تو وہ کوئی مہاجر قبول کر گا اور نہ کی مہاجرین کے کیمپوں میں توسیع کی جائے گی۔ صرف اس سرحد کی بات کی جائے تو تقریباً 64000 افراد یہاں پھنسے ہیں جن کے پاس نہ کھانے کو روٹی ہے اور نہ ہی پینے کو پانی۔
اوکسفورڈ ریسرچ کے مطابق اردن نا صرف شامی مہاجرین کو آنے سے روک کررہا ہے بلکہ موجود افراد کو بے دخل بھی کر رہا ہے۔ اس کے لئے مختلف قوانین کا سہارا لے کر یا بہانے بنا کر شامی مہاجرین کو ملک سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ اردن حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت سلطنت کی سیکیورٹی انسانی ہمدردی سے زیادہ اہم ہے۔
شمال کا سفر شام میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ شام کے لوگ ترکی کے سفر کو ترجیح دے رہے تھے لیکن اب ترکی نے بھی شامی تارکین سے رویہ انتہائی سخت کر لیا ہے۔ حال ہی میں ترک فوج نے شامی پناہ گزینوں کے قافلے پر فائرنگ کر دی جس سے بچوں اور خواتین سمیت 8 شامی مارے گئے۔ اب اطلاعات ہیں کہ ترکی اپنی سرحد پر ہر 300 میٹر کے فاصلے پر آٹو میٹک مشین گنیں لگا رہا ہے جو غیر قانونی تارکین وطن پر خود ہی فائرنگ کر دیں گی، یوں مشین پر کوئی الزام نہیں لگا سکے گا۔ترکی ائیرپورٹ پر حملے اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد سرحدی سیکیورٹی مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ادھر مغرب میں تو لبنان نے سرحد کو قلعہ بنا دیا ہے کہ نہ اس طرف کوئی آئے اور اگر آئے تو واپس نہ جائے۔ شام سے پیدا ہونے والے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں جس کی تازہ مثال بریکا میں ہونے والے حملے ہیں۔
آخر میں شام کا مشرق، جہاں داعش کا مرکز اور عراق ہیں، جہاں ہونے والی جنگ نے پورے خطے کو تباہ کر رکھا ہے۔
شام میں اس وقت 66لاکھ آئی ڈی پیز موجود ہیں، جن میں سے 8لاکھ 50 ہزار افراد تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے جبکہ 3لاکھ سے زائد ایسے مقامات پر موجود ہیں جنہیں محصور کر کے رکھا گیا ہے۔
شام میں موجود پناہ گزینوں تک پہنچنے کی کوشش جاری ہے لیکن عالمی ادارے مشکل میں پھنسے افراد تک نہیں پہنچ پا رہے۔ اس سال اقوام متحدہ کی اپیل کے باوجود ریلیف پروگرام کے لئے پیسے اکٹھے نہیں ہو سکے اور اب 16 بلین ڈالر کا شارٹ فال ہے۔ ادھر مسلح گروہوں نے بھی ریلیف ورکرز کو مخالف فوجی قرار دے دیا ہے۔ ایسے میں اس پنجرے میں پھنسے افراد کی مدد کیسے کی جائے۔
اس وقت ٹیکنالوجی اور جدید جنگوں کے مطابق ریلیف اقدامات کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا۔تمام اطراف شام کو ایک ایسا مسئلہ سمجھ رہی ہیں جس سے بچنے کی ضرورت ہے تاہم اسمیں پھنسے افراد کی کسی کو فکر نہیں۔ ان لوگوں نے اپنے سامنے لاکھوں لوگوں کو مرتے دیکھا ہے۔ بس یہ لوگ بچنا چاہتے ہیں تاکہ زندہ رہ سکیں۔ شاید ایک بہتر کل کے لئے۔