شامی بچے، ترک مہربان

ترکی کی اپوزیشن پارٹی  سی ایچ پی کی رپورٹ

ترکی میں آنے والے شامی بچوں پر جرائم پیشہ گروہوں کی موج لگ گئی ہے۔ 12 سے 13 سالہ بچوں کر مختلف گینگ  یا تو خرید رہے ہیں یا پھر اغوا کر کے لے جا رہے ہیں۔  ان بچوں کی تصاویر دکھا کر حکمران جماعت لوگوں کی ہمدردی حاصل کرتی ہے کہ وہ ان کی مدد کر رہے ہیں حالانکہ یہ بچے ملک میں موجود حوس کے پجاریوں کی تسکین کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ ایک پوری معیشت بن گئی ہے۔ حیران کن طور پر پولیس ریکارڈ کے مطابق ملک بھر میں شامی مہاجرین کی آمد کے بعد ترک بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں 80 فیصد کمی ہوئی ہے۔

ترک حکومت بھی اپنی کارکردگی بہتر ثابت کرنے کے لئے خاموش ہو گئی ہے کیونکہ یہ مہاجرین کچھ نہیں بولیں گے۔ ایسے میں خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک کا تو اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ یہ خاندان ایک ایک کمرے میں رہ رہے ہیں۔ خواتین کو ایک ، دو یا تین افراد سے شادی کرنی پڑ رہی ہے تاکہ وہ صرف زندہ رہ سکیں۔ ترک  حکومت کی حکمت عملی کہیں یا معجزہ کیونکہ یہاں آنے والے 80 فیصد افراد کی عمر 18یا اس سے کم ہے۔ آخر اتنے نوجوانوں کو ہی کیوں مہاجر کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق بیشتر مہاجرین کے بچوں اور بچیوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ ترکی میں بچوں سے زیادتی کے واقعات عام ہیں۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہاں لوگوں کو اس کی لت ہے۔ ان بچوں سے زیادتی کے علاوہ سرحدی علاقوں کی فیکٹریوں میں بھی کام لیا جا رہا ہے تاکہ معیشت کو فائدہ ہو اور انہیں ایک روپیہ بھی دینا نہ پڑے۔ ادھر عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ خدا ترسی میں ایسا کیا جا رہا ہے حالانکہ حکمران جماعت کے لوگ خود اس قبیح دھندے میں شامل ہیں۔ حکومت اعدادشمار کے مطابق 14 سے 17 سال کی عمر میں موجود بیشتر بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ ان میں شامل بیشتر بچیاں حاملہ ہیں، کیا ترکی نے ان مہاجرین کی مدد کی ہے؟

x

Check Also

شامی پنجرہ

جیمز ڈین سلو   شام کا بحران دن بد دن بد سے بد تر ہو ...

برطانیہ کا عظیم جوا

مروان بشارا برطانیہ نے یورپی یونین سے باہر آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب ہر ...

یورپی یونین چھوڑ دی، اب تم برطانیہ چھوڑو

بن ویسکوٹ برطانیہ میں یورپی یونین کے لئے ووٹنگ کےبعد ملک بھر میں نسل پرستی ...

%d bloggers like this: