بن ویسکوٹ
برطانیہ میں یورپی یونین کے لئے ووٹنگ کےبعد ملک بھر میں نسل پرستی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
امیگریشن کے مخالفین پولش، بھارتی ، بنگلا دیشی اور پاکستانی اقلیتوں سے ملک چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
نسل پرست گروہ نہ صرف اقلیتوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں بلکہ انہیں زبردستی ملک چھوڑنے پر مجبور بھی کر رہے ہیں۔
کنزرویٹو پارٹی کی رکن سعیدہ وارثی نے بھی یورپی یونین چھوڑنے کی تحریک چلائی لیکن پھر عین وقت پر مخالفت شروع کر دی۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں اس ووٹنگ کے اچھے نتائج نہیں نکلے۔ ان کا کہنا ہے کہ نسل پرست انہیں کہہ رہے ہیں کہ ہم نے چھوڑنے کے لئے ووٹ دیا اب تم ملک چھوڑ دو۔ لوگوں تین سے چار نسلیں برطانیہ میں جوان ہوئیں، یہاں رہیں اب وہ کہاں جائیں؟
برطانیہ کی مسلم کونسل کے مطابق ووٹنگ کے بعد نسل پرستانہ جرائم میں 100 فیصد اٖضافہ ہوا ہے۔ انہوں نےبھی پولیس سے اقلیتوں کی سیکیورٹی بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانیہ کے موجوودہ حالات میں اقلیتیں غیر محفوظ ہو گئیں ہیں اور کسی وقت بھی کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔ اقلیتوں کے گھروں کے باہر ملک چھوڑو کے بینر لگے ہیں۔ مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور پولیس کہتی ہے کہ اگر کوئی پکڑا گیا تو سات سال کی سزا ہو گی حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ کون کر رہا ہے لیکن وہ ووٹنگ کے بعد اتنے زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں کہ کوئی بھی ہاتھ ڈالنے سے ڈر رہا ہے۔ یہ لوگ برطانیہ کی اکثریت رکھنے والے نسل پرست گروہ ہیں۔
لندن جیسے شہر میں بھی اقلیتوں کے گھر کے باہر سپرے پینٹ سے گالیاں لکھی گئیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ بنا کر لوگ اقلیتوں سے ملک چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم سب سے خطرناک معاملہ یہ ہے کہ اب برطانیہ کے فیصلے کے بعد پورے یورپ میں نسل پرستی کی تحریک زور پکڑ رہی ہے، اگر اسے روکا نہ گیا تو شاید ہم تاریخ کا سیاہ ترین دور دیکھنے والے ہیں۔