سڈنی سے لندن صرف دو گھنٹے کی پرواز، اس خواب کو حقیقت بنانے کے سلسلے میں ماہرین کو مزید ایک کامیابی حاصل ہو گئی ہے۔ ماہرین نے آسٹریلوی صحرا میں ہائپر سونک ٹیکنالوجی کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
ایک امریکی اور آسٹریلوی ملٹری ریسرچ ٹیم مشترکہ طور پر آسٹریلیا کے جنوبی حصے میں وومیرا کے مقام پر بنائی گئی دنیا کی سب سے بڑی زمینی ٹیسٹنگ رینج اور ناروے کی انڈویا راکٹ رینج پر اس جیٹ انجن کی آزمائش جاری رکھے ہوئے ہے، جو 10 مراحل پر مشتمل ہے۔
آسٹریلوی سائنسٹسٹ کے مطابق، ’’یہ ایک گیم چینجنگ یا بڑی تبدیلی لانے والی ٹیکنالوجی ہے… دنیا بھر میں فضائی سفر میں انقلاب برپا کر سکتی ہے اور خلا تک بھی مؤثر لاگت کے ساتھ رسائی فراہم کر سکتی ہے۔‘‘
سائسندانوں کا کہنا ہے کہ ہائپر سونک ٹیکنالوجی کے ذریعے سڈنی سے لندن تک کی پرواز وقت کے حساب سے سُکڑ کر محض دو گھنٹے تک محدود ہو سکتی ہے۔ خیال رہے کہ یہ فاصلہ 17 ہزار کلومیٹر بنتا ہے۔ ہائپر سونک فلائٹ دراصل آواز کی رفتار سے بھی پانچ گُنا تیز رفتار سے سفر کرے گی۔
اس پروگرام میں ایرو اسپیس کی ایک بڑی امریکی کمپنی بوئنگ اور جرمن اسپیس ایجنسی DLR بھی شریک ہے۔
اسکریم جیٹ دراصل ایک سپر سانک انجن ہے، جو فضا سے آکسیجن حاصل کر کے بطور ایندھن استعمال کرتا ہے، جس سے یہ نہ صرف ایندھن ساتھ لے جانے والے راکٹ انجنوں کی نسبت ہلکا ہے بلکہ تیز رفتار بھی ہے۔
اس راکٹ انجن کا آئندہ تجربہ 2017ء میں شیڈول ہے، جس میں سکریم جیٹ انجن ایک بوسٹر راکٹ کے ذریعے فضا میں چھوڑا جائے گا، جس کے بعد یہ اپنے طور پر پرواز کرے گا۔
اس انجن کا پہلا تجربہ 2009ء میں کیا گیا تھا۔ اس وقت توقع ظاہر کی گئی تھی کہ اس انجن پر کام 2018ء تک مکمل ہو جائے گا۔