برطانوی عوام کی بغاوت کیا یورپی یونین بچے گی؟

برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے جس کے بعد جنگ عظیم دوم کے بعد یورپی اتحاد کے سر پر غیریقینی کی صورتحال لٹکنے لگی ہے۔

یوری یونین کو پہلے ہی رکن ممالک میں اتحاد کے خلاف بنتی فضا، تارکین وطن کے بحران اور معاشی مسائل کا سامنا ہے اور برطانوی ریفرنڈم آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ثابت ہوگا۔

دیگر ممالک میں ریفرنڈم کے مطالبات یورپی اتحاد کو کمزور کرنے کے ساتھ جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ کو تباہ کاریوں سے بچانے اور سیکیورٹی کی بحالی کے خواب کو چکنا چور کرسکتا ہے۔

 

عوام کی بغاوت

برسلز کے تھنک ٹینک یورپین پالیسی سنٹر کے ڈائریکٹر جینس کہتے ہیں کہ برطانوی ریفرنڈم کے نتائج نے یونین اور برطانیہ کے تعلقات کے ساتھ رکن ممالک اور دنیا میں اتحاد کی حیثیت کو غیریقینی سے دوچار کر دیا ہے۔

آپ نے یونین سے نکلنے کا راستہ کھول دیا ہے یہ دنیا کے ساتھ ساتھ رکن ممالک کے شہریوں کو بھی منفی سگنل دے گا۔

کیمبرج یونیورسٹی کے لیکچرار اور کتاب ’’یورپی یونین، اے سٹیزن گائیڈ‘‘ کے مصنف کرس بیکرٹن کہتے ہیں کہ اگرچہ بہت بڑا دھچکا ہے لیکن جان لیوا ہرگز نہیں، یورپی یونین کا یورپ کی سیاسی زندگی میں اثر قائم رہے گا۔

یورپی یونین اچانک ہی ختم نہیں ہو جائے گی تاہم برطانیہ کے جانے کے دیرپا اثرات پڑیں گے، مستقبل بعید میں یہ شاید ختم یا پھر انتہائی کمزور ہو جائے۔

یورپی اتحاد کے مشکلات پیدا کرنے والے رکن برطانیہ کے نکلنے کے بعد یونین کے حامی ممالک اب آگے بڑھنے کا کوئی دوسرا راستہ بھی بنا سکتے ہیں۔

یورپ میں طاقت کے مرکز فرانس اور جرمنی پہلے ہی مشترکہ حکمت عملی بنانے پر کام کر رہے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یورو کرنسی زون سمیت بنیادی معاملات پر اختلافات کے باعث ان کا بھی بہت آگے جانا مشکل ہوگا۔

لندن کے فیصلے سے سبق سیکھے بغیر آگے بڑھنا برلن اور پیرس کے لئے بھی دانشمندانہ اقدام نہیں ہوگا۔

فرنچ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنینشل ریلیشنز کے رکن ڈومنی مویسی کہتے ہیں برطانوی عوام نے اپنی اسٹیبلشمنٹ کو فیصلہ سنا دیا کہ وہ ابھی مزید اتحاد میں رہنا نہیں چاہتے، یہ عام لوگوں کی برسراقتدار اور سرمایہ داروں کیخلاف بغاوت ہے۔

جہاں تک یورپی یونین کی بات ہے تو یہ ریفرنڈم اس پورے منصوبے کو مسترد کرتا ہے، ووٹرز اپنے حکمرانوں کو برسلز کی خاطر اپنے لوگوں کو دھوکا دینے کا مرتکب قرار دے رہے ہیں۔

 

بھیڑ چال کے خدشات؟

یورپی یونین کے رکن ممالک کے دارالحکومتوں میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ برطانوی ریفرنڈم کے نتائج سے کہیں بھیڑ چال شروع نہ ہو جائے۔

 

دائیں بازو کی فرانسیسی جماعت لی پین نے فوری طور پر ریفرنڈم کا مطالبہ کر دیا، ہالینڈ میں بھی انہیں مطالبات کی گونج سنائی دی جہاں رکن پارلیمنٹ گیرٹ ولڈرز یونین سے علیحدگی کے لئے ووٹنگ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یورپی یونین کو درپیش اصل خطرہ یہ ہے کہ برطانوی ریفرنڈم کے بعد اگر مغربی اتحاد اپنے لئے آگے بڑھنے کا راستہ نکال بھی لیتا ہے تب بھی یہ تاریخی قوتوں کو اپنے پرخچے اڑانے سے روک نہیں پائے گا۔

جرمنی کے سنٹر فار یورپی پالیٹکس کے لیوڈر گیرکن کہتے ہیں کہ برطانوی ووٹ یورپ کے لئے نقارہ وقت ہونی چاہیے۔ صرف برطانوی عوام ہی یورپی یونین سے علیحدگی نہیں چاہتے بلکہ یورپ میں مرکز گریز قوتیں (ایسی قوتیں جو مَرکَز سے بیرُونی جانِب حَرکَت کَرنے کا رُجحان رکھتی ہیں) بہت خطرناک ہیں، یہ ان کا اثر سب سے زیادہ نیدرلینڈز اور ڈنمارک میں دیکھا جا رہا ہے۔

x

Check Also

شامی بچے، ترک مہربان

ترکی کی اپوزیشن پارٹی  سی ایچ پی کی رپورٹ ترکی میں آنے والے شامی بچوں ...

شامی پنجرہ

جیمز ڈین سلو   شام کا بحران دن بد دن بد سے بد تر ہو ...

برطانیہ کا عظیم جوا

مروان بشارا برطانیہ نے یورپی یونین سے باہر آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب ہر ...

%d bloggers like this: