’نیند بہت اہم ہے، اس پر سمجھوتہ نہ کریں۔ ایک نئے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ’نیند کے عالمی بحران‘ کی بڑی وجہ سماجی
سطح پر پایا جانے والا دباؤ ہے۔
سائنسدانوں نے موبائل فون کی ایک ایپلیکیشن کی مدد سے معلومات جمع کی ہیں کہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر کتنی دیر سوتے ہیں اور ان کے جلد یا دیر سے سونے میں کیا قباحتیں حائل ہوتی ہیں۔ اس اسٹڈی کے لئے لوگوں کی رضا مندی سے تقریبا چھ ہزار ایسے افراد سے معلومات جمع کی ہیں، جس میں انہوں نے اپنے ٹائم زون اور سونے کی عادات کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
اس رسرچ میں سو سے زائد ممالک کے باشندوں کو اعدادوشمار جمع کیے گئے، جن میں عمر اور جنس کے علاوہ ان کی قدرتی روشنی میں کام کرنے کے اوقات کو بھی شمار کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس مطالعے کے نتائج کے تجزیے سے ’نیند کے عالمی بحران‘ پر قابو پانے میں مدد مل سکے گی۔
اس مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل پریشر نیند کو کم کرنے یا نیند کے حیاتیاتی محرکات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‘‘ لوگ بستر میں سونے کی خاطر کب جاتے ہیں، اس بات سے نیند سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق درمیانی عمر کے لوگوں کی نیند سب سے کم ہوتی ہے۔ یعنی وہ طبی طور پر تجویز کردہ یعنی سات یا آٹھ گھنٹوں سے کم سوتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق ڈچ لوگ جاپان اور سنگار پور کے لوگوں کے مقابلے میں ایک گھنٹہ زیادہ سوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر خواتین مردوں سے آدھ گھنٹہ زیادہ سوتی ہیں۔ بالخصوص ایسی خواتین، جن کی عمریں تیس اور ساٹھ برس کے درمیان ہوتی ہیں۔
اس مطالعے کے نتائج کے مطابق ایسے افراد جن کو نیند کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی وقوفی صلاحتوں میں ایک غیر محسوس طریقے سے کمی واقع ہو سکتی ہے، ’’نیند سے محرومی یا اس میں کمی سے انسانی زندگی کو سخت خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بے خوابی کی مستقل کمی کے باعث موٹاپا، ذیابیطس، بلند فشار خون اور دل کی بیماریوں کے خطرات جنم لے سکتے ہیں۔