اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے نیٹ ورک کو نشانہ بنانے کے لیے امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے نے 1996 میں ایک خصوصی یونٹ قائم کیا جسے ایلک اسٹیشن کا نام دیا گیا۔
مائیکل شوئر اس یونٹ کے سربراہ تھے جنہوں نے سعودیوں کو انتہائی کم تعاون کرنے والا پایا۔
” جب ہم نے 1996 میں اس یونٹ کو قائم کیا تب سعودیوں سے اسامہ بن لادن کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات کا مطالبہ کیا تھا۔ جیسے برتھ سرٹیفکیٹ، مالیاتی ریکارڈ اور اس جیسی کچھ سادہ سی معلومات۔ لیکن ہمیں کچھ فراہم نہیں کیا گیا۔”
اسامہ بن لادن کو پکڑنے پر مامور سی آئی اے کا یونٹ تین سال تک سعودیوں سے ان سادہ لیکن انتہائی اہم معلومات کے لیے درخواست کرتا رہا لیکن انہیں کوئی جواب نہ ملا۔ شوئر اپنے ایک انٹرویو میں اس بارے میں کچھ یوں بتاتے ہیں۔
”آخر کار 1999 میں ہمیں ریاض میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف جان برینن کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ہمیں مزید ایسی درخواستیں نہ کرنے کے لیے کہا کیونکہ اس سے ”سعودیوں کو پریشانی” ہوتی ہے۔”
یہ قصہ ایک تو اس لیے اہم ہے کہ جان برینن اب سی آئی اے کے ڈائریکٹر ہیں جنہوں نے 2013 میں ڈیوڈ پیٹریاس کے بعد یہ عہدہ سنبھالا ہے۔ دوسرا اس لیے اہم ہے کہ گزشتہ ہفتے بھی انہوں نے ایسی ہی ایک اور کوشش کی تاکہ سعودیوں کو پریشانی سے بچایا جاسکے۔
نائن الیون پر کانگریس کی انکوائری رپورٹ جسے جاری نہیں کیا گیا اس پر العریبہ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے جان برینن نے بتایا کہ رپورٹ میں سعودی عرب سے متعلق اٹھائیس صفحات میں ”ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ سعودی عرب کی حکومت نے بطور ادارہ یا اعلیٰ سعودی حکام نے انفرادی حیثیت میں نائن الیون حملوں کو سپورٹ کیا ہو۔”
دوسرے لوگ جنہوں نے یہ رپورٹ پڑھ رکھی ہے اور جو بالواسطہ سعودی حمایت یا ماضی میں القاعدہ کو برداشت کئے جانے کے سوالوں سے بچتے پھررہے ہیں ان کی جانب سے ایسا تاثر نہیں ملتا۔
اس صورتحال کے تناظر میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ 1996 سے 2016 کے بیس سالوں میں سی آئی اے، برطانوی سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کے اداروں نے مضبوط سنی ریاستوں سعودی عرب، خلیجی بادشاہتوں، ترکی اور پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری کو اہمیت دی بجائے اس کے کہ القاعدہ، النصرہ، داعش اور طالبان جیسی دہشت گرد تنظیموں کو ختم کیا جائے۔
سلفی جہادی سنی بنیاد پرست تنظیموں کو تباہ کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے اور سنی ریاستوں کے ساتھ اشتراک بنائے رکھنے کے لیے کیا ضروری ہے ان دونوں باتوں میں تضاد کی ایک لمبی کہانی ہے جس سے انتہائی مہنگی ”دہشت گردی کے خلاف جنگ” کی ناکامی کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔
جان برینن اس تباہ کن ناکامی کی ذمہ داری نہیں لیتے لیکن سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے اس کے اثرات کا ضرور اعتراف کیا۔
”ہماری کوششوں کے باوجود داعش کی دہشت گردی کی صلاحیت میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس گروہ کی دہشت گردی کی صلاحیت میں واضح کمی لانے کے لیے اسے رقبے، نفری اور پیسوں کے حوالوں سے زیادہ نقصان پہنچانا ہوں گے۔”
داعش اب اتنی مضبوط نہیں جتنی وہ کبھی اپنے عروج کے دنوں میں تھی اسے عراق اور شام میں کئی محاذوں پر لڑنا پڑرہا ہے۔
داعش کی جانب سے شدت پسندوں کو اپنے ممالک میں انفرادی کارروائیاں کرنے پر زور دینے کی وجہ ترکی کی سرحد پر آمدورفت کا مشکل ہونا ہے۔ شامی کردوں کی پیش قدمی اور امریکی فضائی کی موجودگی سرحد پر نقل و حرکت کو مزید مشکل بنارہی ہے۔
داعش کی قیادت اس بات سے بہت اچھی طرح واقف ہے کہ اورلینڈو، برسلز اور پیرس جیسے بربریت کے واقعات ان کی تحریک کو خبروں میں ہفتوں زندہ رکھتے ہیں۔ جتنا ان کو برا بھلا کہا جاتا ہے اتنا ہی وہ مضبوط ہوتے ہیں اور اس لعن طعن کو نئے لوگوں کی بھرتی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
داعش اپنی خودساختہ خلافت کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے بعد دہشت گردی کے لیے گوریلا طریقہ کار اپنا رہی ہے۔ ایک سال پہلے اگر دیکھا جائے تو داعش اتنی طاقتور تھی کہ اس نے رمادی اور پلمائرا پر چڑھائی کی تاہم اب بیرون ملک عام شہریوں کے قتل عام کا مقصد درحقیقت اپنی کمزور پڑتی طاقت کو چھپانا ہے۔
صدر اوباما کا یہ دعویٰ تمام تر تنقید کے باوجود حقیقت سے کافی قریب تر ہے کہ داعش کے خلاف ان کی مہم کے نتائج مثبت آرہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کی انتظامیہ لوگوں کو اس بات کا یقین دلانے میں اپنا اعتبار کھوچکی ہے جس کی وجہ ماضی میں داعش کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کے دعوے ہیں جن کی بعد میں تردید سامنے آتی رہی ہے۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر کو جو چیز مختلف بناتی ہے وہ داعش کی خود ساختہ خلافت کی جانب سے وسائل کی فراہمی ہے۔ داعش اپنی موجودہ کمزور حالت میں بھی پیسہ، تربیت اور آلات فراہم کرنے کے ساتھ مواصلاتی رابطے بھی قائم رکھے ہوئے ہے۔ جب دہشت گردی یا جنگ کی نوبت آئے تو داعش کا منظم ڈھانچے والی انتظامیہ کے ساتھ رقبے پر کنٹرول رکھنا اس کی لڑائی کی قوت میں واضح فرق پیدا کرتا ہے۔
داعش کو اس کے مخالفین کی تقسیم سے بھی مدد ملتی ہے جس کی بڑی مثال اس وقت حلب کی لڑائی ہے جہاں سی آئی اے اور پینٹاگون ایک دوسرے سے انتہائی مختلف مقاصد کے حصول میں ہیں۔ پینٹاگون داعش سے لڑائی اور اس کی شکست کو اپنا واضح مقصد قرار دیتا ہے جبکہ سی آئی اے کا موقف ہے کہ داعش کا خاتمہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ پہلے صدر بشار الاسد اور اس کی حکومت کا تختہ الٹا جائے۔
امریکی انٹیلی جنس کا ایک افسر اپنے انٹرویو میں کچھ یوں کہتا ہے کہ ”داعش کو مکمل طور پر شکست دینے کے لئے اسد کو شکست دینا بنیادی شرط ہے۔ جب تک دمشق میں ایک ناکام لیڈر اور شام میں ایک ناکام حکومت موجود ہے داعش کو اپنی کارروائی کے لیے جگہ ملتی رہے گی۔”
اس نکتہ نظر سے ایک مشکوک مفروضہ جنم لیتا ہے کہ اسد کا تختہ الٹائے جانے کے بعد دمشق میں ایک کم ناکام ریاست ہوگی۔
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک دستاویز میں اکیاون سفارتکاروں کا اسی نکتہ نظر سے ملتا جلتا موقف سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اسد کی فوج کے خلاف فوجی کارروائیوں کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ جنگ بندی کی پاسداری کرائی جاسکے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ شامی حکومت کی جانب سے عام شہریوں پر بمباری ”شام اور اردگرد کے علاقوں میں عدم استحکام کی جڑ ہے۔” اس دستاویز میں میزائلوں اور فضائی ہتھیاروں کے بہتر استعمال کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ ایک مرکوز اور سخت گیر امریکی سفارتکاری کا مقصد حاصل کیا جاسکے۔ ان سفارتکاوں کا ماننا ہے کہ اس وقت اسد پر ایسا کوئی دباؤ نہیں کہ وہ ”دشمنیوں کے خاتمے” والا سیز فائر قبول کریں جس میں داعش اور النصرہ شامل نہ ہوں۔
شام مزید خون خرابے کے بجائے اور کچھ بھی چاہے گا ایسے میں سفارتکاروں کی جانب سے فضائی حملوں کا مطالبہ غیرمعمولی طور پر بھولا بھالا اور بنا سوچا سمجھا لگتا ہے۔ ان لوگوں کا اسد مخالف نکتہ نظر اس بات سے پہلوتہی کرتا ہے کہ شام میں مسلح مخالفین کی اکثریت داعش، النصرہ اور احرار الشام کی ہے۔ سفارتکاروں کا اسد کے مظالم کو مسترد کرنا قابل فہم ہے لیکن انہیں اس حقیقت کو بھی قبول کرنا چاہیے کہ اسد کی حکومت کا متبادل اسلامی شدت پسند ہیں۔ امریکا پچھلے چند سالوں میں کافی بھاری قیمت چکاکر یہ جان چکا ہے کہ اسد سے لڑرہے مخالفین میں کوئی بھی اعتدال پسند نہیں جن کی وہ حمایت کرسکے۔
اختلافی نکتہ نظر رکھنے والے امریکی سفارتکار شاید حقیقت میں ایسا مانتے ہیں کہ شام اور عراق میں جاری جنگوں میں امریکا اور شامی حکومت کی مزید ایک جنگ کو شامل کردینے سے جلد امن کا قیام ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ سی آئی اے کی جہادی گروپوں اور سعودی عرب جیسی سنی حکومتوں میں موجود ان کے حمایتوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کی ایک لمبی مایوس کن تاریخ ہے۔ ایسے میں اگر کوئی نئی لڑائی چھیڑنے کی بات کررہا ہے تو پہلی ترجیح داعش کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔