اجیت سنگھ
سونی سوری بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے سقم کلیکٹریٹ آفس کے باہر کئی دنوں سے بھوک ہڑتا ل پر بیٹھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گوپاد گاؤں میں ہونے والے حالیہ پولیس مقابلوں میں ماری گئی لڑکیوں کا ماؤ تحریک سے کوئی تعلق نہیں تھا اور پولیس نے قبائلی لڑکیوں سے زیادتی کرنے کے بعد انہیں قتل کر کے پھینک دیا۔ لڑکیوں کو ماؤ باغیوں کے کپڑے پہنائے گئے اور پھر ان کے قریب اسلحہ بھی رکھ دیا گیا۔
یہ واقعہ حالیہ دنوں میں ریاستی جبر کی بدترین مثال ہے لیکن شاید دنیا جاننا چاہے گی کہ سونی سوری کون ہے؟ تو یہ چھتیس گڑھ کے قبائل کی وہی خاتون ٹیچر ہے جسے کچھ سال قبل پولیس نے بھارتی فوج نے زیادتی کا نشانہ بنایا پھر اس پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے، کئی سال جیل میں رکھا گیا، مارا پیٹا گیا ، پھر عدالت نے کہا کہ نہیں یہ بے گناہ ہے، اس جانے دو۔
ایسی حالت میں شاید باہر نکل کر اسے ماؤ باغی بن جانا چاہیے تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور قبائلی خواتین پر ریاستی جبر کے خلاف مستحکم آواز بن گئی۔ اسی خاتون نے دنیا بھر میں بھارتی ریاستی تشدد کو اجاگر کیا۔ اب ایک بار پھر یہ تیرہ جون کو ہونے والے پولیس مقابلے کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے۔ جس میں پولیس کے مطابق معروف ماؤ باغی مدقم ہدمے ماری گئی ہے۔ مگر گاؤں والے کہتے ہیں کہ وہ تو ماؤ باغی تھی ہی نہیں اور نہ ہی کوئی مشہور شخصیت تھی۔ اسے تو پولیس والوں نے اغوا کیا اور پھر قتل کر دیا۔
اب یہ بیچاری سونی اس علاقے میں جا کر معاملے کی تحقیقات کرنا چاہتی ہے لیکن کوئی اسے جانے نہیں دے رہا، اس وجہ سے اس نے بھوک ہڑتال کر دی ہے۔ کسی کو گاؤں میں جانے کی اجازت نہیں، کوئی اندر یا باہر نہیں جا سکتا۔ حالانکہ گاؤں والوں کی طرف سے مسلسل پیغام آ رہے ہیں کہ وہ بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ دنیا کو حقیقت بتانا چاہتے ہیں لیکن ان کی آواز دبائی جا رہی ہے۔
دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ اگر سونی مر بھی جائے تب بھی بھارتی میڈیا یا صحافت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مدقم ہو یا سونی ، کوئی بھی مرے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔