آخر امریکا چاہتا کیا ہے؟

الیک زینڈر وننگ

روسی چیف آ ٓرمی سٹاف  اور ڈپٹی وزیر دفاع نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں حیرت انگیز انکشاف کیے ہیں۔

جن سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں بہت اہم معاملات سے پردہ اٹھا ہے۔

روسی چیف نے بتایا کہ امریکہ نے انہیں اب تک شام اور عراق میں دہشت گردوں کی فہرست فراہم نہیں کی۔

یہ عام سی با ت لگتی ہے، لیکن اتنی عام نہیں، یعنی امریکہ اس بات سے خوف زدہ ہے کہ وہ کسے دہشت گرد قرار دے۔ اگر اس نے ایک بار ایسا کر دیا تو پھر باقی دہشت گرد نہیں رہیں گے۔

امریکہ کوئی مستحکم بات نہیں کرنا چاہتا۔حتیٰ کہ وہ روس کو لکھ کر یہ بھی نہیں دینا چاہتا کہ داعش دہشت گرد ہے۔ عجیب بات ہے؟

ویلرے گارسی موو کا بیان شاید جان کیری پر ردعمل ہو سکتا ہے کیونکہ انہوں نے ایک ہفتہ قبل ہی کہا ہے کہ شام میں جنگ بندی کی خلا ورزی سے امریکی تحمل ختم ہو رہا ہے۔

روسی بیان سے یہ دنیا کو یہ باور کرانا  بھی ہے کہ امریکہ نہیں بلکہ اب روسی تحمل ختم ہو رہا ہے کیونکہ امریکہ امن کے لئے وعدے کے مطابق کوئی عمل نہیں کر رہا۔

روس کئی ماہ سے امریکی حکام سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں اور فوجی اڈوں کے سیٹلاٹ کوڈ ان کو فراہم کرے تاکہ داعش جیسے مشترکہ دشمن کو نشانہ بنایا جا سکے  لیکن امریکہ نے ایسا نہیں کیا۔

اس امریکی عمل کی وجہ سے عراق  سے پسپا ہوتے دہشت گرد اب شام میں جمع ہو رہے ہیں۔ اب ا ن دہشت گردوں کو بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے عراق میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچا کر غلط کیا۔ ان دہشت گردوں کے آقا انہیں کہہ رہے ہیں کہ دیکھا ہم نا کہتے تھے کہ تم نے جلدی کی۔ آرام سے بیٹھ جاؤَ۔ آہستہ آہستہ پیش قدمی کرو، پہلے شام پر قبضہ کر لو۔ جلدی کس بات کی ہے۔ پھر عراق کی باری آ جائے گی۔ اصل مقصد پھر حاصل کرنا ہے۔ یعنی تمام برائیوں کی جڑ ختم کرنی ہے۔ ایران۔۔۔

آقا تو کچھ بھی منصوبہ بنائیں لیکن امریکہ اور روس اب آمنے سامنے ہیں۔ داعش اور اس کے آقا سمجھ لیں کہ امریکہ عراق اور روس شام کو اپنے ہاتھ سے نہیں نکلنے دے گا۔ ہر حال میں دہشت گردوں کو ہی شکست ہو گی۔ایران کی بات تو دور ہے۔

گارسی موو کے بیان کی اس لائن پر اپنی بات کا اختتام کر رہا ہوں، کیونکہ شاید یہ ساری کہانی  بیان کر دیا ہے

’’شام میں، اگر انہیں باغی سمجھا جائے، یا ہم دہشت گرد کہیں، مسلح تنظیم سرکار پر حملہ کر رہی ہیں۔ کیا یہ مسلسل دہشت گردی نہیں، یا یوں کہیں کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں۔ اگر شامی فوج پر نام نہاد باغی حملہ کریں گے تو جواب ملے گا، منہ توڑ جواب ملے گا۔ اسے  جنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں کہا جا سکتا۔ اسے اپوزیشن پر حملہ نہیں سمجھتے اور نا سمجھیں گے۔

x

Check Also

شامی بچے، ترک مہربان

ترکی کی اپوزیشن پارٹی  سی ایچ پی کی رپورٹ ترکی میں آنے والے شامی بچوں ...

شامی پنجرہ

جیمز ڈین سلو   شام کا بحران دن بد دن بد سے بد تر ہو ...

برطانیہ کا عظیم جوا

مروان بشارا برطانیہ نے یورپی یونین سے باہر آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب ہر ...

%d bloggers like this: