رمزی برود
اسرائیل مکمل کوشش کر رہا ہے کہ فلسطین کو پانی نہ پہنچے۔ یہ صرف سزا نہیں ،یہ دو دھاری تلوار ہے جس کا مقصد یہ یقین دہانی ہے کہ فلسطینی معیشت کھڑی نہ ہو سکے۔ پانی کی قلت نے ہزاروں فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ جب اسرائیلی حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تمام الزامات کو مسترد کیا اور بتایا کہ ملک میں مجموعی طور پر پانی کی قلت ہے۔ اسرائیلی علاقوں میں بھی پانی کی سپلائی متاثر ہو رہی ہے۔ حقیقت کچھ بھی ہو رمضان میں پانی کی قلت فلسطینیوں کے لئے ایک بہت بڑا امتحان ہے۔
اس معاملے پر مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل برسوں سے پانی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ 1967 میں مغربی کنارے پر تسلط کے بعد اسرائیل نے پانی کی سپلائی بند کی جس کے باعث لوگوں نے نقل مکانی کی اور پھر وہاں غیر قانونی بستیاں قائم کی گئیں۔ اس کا ایک اور مقصد فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینا بھی ہے۔
فلسطین کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے اور پانی کی کمی اسے سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے۔ پانی بند کر کے فلسطینیوں کے چولہے ٹھنڈے کیے جا رہے ہیں۔ مغربی کنارے میں کچھ عرصے سے ایک بار پھر اسرائیل مخالف جدوجہد زور پکڑ رہی ہے۔ پانی کی سپلائی کا ایک مقصد اسے کچلنا بھی ہے۔ یوں یہودیوں اور مسلمانوں میں نفرت مزید بڑھے گی کیونکہ پانی بنیادی ضرورت ہے۔ خاص طور پر رمضان میں افطاری کے لئے تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ لیکن آج فلسطینیوں پر فلسطین کا ہی پانی بند ہے۔ یہ تمام پانی مغربی کنارے میں موجود ہے جسے اسرائیل پہلے چوری کرتا ہے اور پھر اسے فلسطینیوں کو ہی بیچتاہے، اب اسے بھی بند کر دیا گیا۔
پانی کی قلت لوگوں کو پاگل بنا رہی ہے۔ ہر شخص اذیت میں ہے۔ جنین، سلفیت اور نابولس میں تو نوبت ہنگامی آرائی اور آپسی لڑائیوں تک پہنچ گئی ہے۔ پورے پورے خاندان کے پاس دن بھر میں دو سے تین لیٹر ہی پانی موجود ہے۔ اس وجہ سے لوگ اب اسرائیل سے پانی بھی اسمگل کرا رہے ہیں، یہ کیسی عجیب بات ہے۔ اگر عالمی برادری نے نوٹس نہ لیا تو شاید جلد ہی آپ اسرائیل کے خلاف رد عمل دیکھیں گے اور پھر اسرائیل حملہ آور ہو کر قتل عام کرے گا اور کہا جائے گا کہ فلسطینیوں نے یہ سب کچھ شروع کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل درحقیقت فلسطینیوں کو اشتعال دلاتا ہے تاکہ پھر آپریشن کا جواز بنایا جا سکے۔