برصغیر کی تقسیم خونی اور ظالمانہ تھی۔ منٹو اس تقسیم کو پاگل پن کی حد تک احمقانہ عمل سمجھتا تھا۔ اگست 1947 سے پہلے بمبئی میں رہنے والا سعادت حسن منٹو خاصا جانا پہنچانا مصنف تھا لیکن تقسیم کے بارے میں لکھی کہانیوں نے منٹو کی شناخت کو دوام بخشا۔
منٹو کو عمر نے کام کرنے کی بہت زیادہ مہلت نہیں دی اور شراب کی لت نے اسے تینتالیس سال میں مار ڈالا۔ اس کے باوجود منٹو نے افسانوں کے بیس ، ریڈیو ڈراموں کے پانچ ، مضامین کے تین اور خاکوں کے دو مجموعے، ایک ناول اور فلمی سکرپٹ لکھے۔
منٹو نے جنس ، شراب اور طوائف کے بارے میں لکھا اور اسے چھ بار فحش نگاری کے الزامات کا سامنا رہا۔ منٹو نے بطور صحافی پاکستان میں اسلامی بنیاد پرستی کے بڑھنے کی پیش گوئی کی تھی۔
تقسیم برصغیر کی تاریخ کا ایک وحشیانہ باب ہے اور منٹو اس کا سب سے بڑا داستان گو ہے۔ اگلے سال تقسیم کو ستر سال ہونے جارہے ہیں ایسے میں لوگوں کی منٹو میں دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے۔ پچھلے سال پاکستان میں منٹو پر بنی فلم ریلیز ہوئی تو رواں سال کانز فلم فیسٹیول میں اعلان کیا گیا کہ منٹو پر بھارت میں بھی فلم بنے گی۔
منٹو عموما ایک ہی نشست میں کہانی لکھتا تھا وہ بھی بہت کم کانٹ چھانٹ کے ساتھ اور اس کا موضوع زیادہ تر معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگ ہوتے تھے۔
تاریخ دان عائشہ جلال اپنی کتاب ”دی پٹی آف پارٹیشن” میں منٹو کے بارے میں لکھتی ہیں:
”چاہے اس نے طوائفوں، دلالوں یا بدمعاشوں کے بارے میں لکھا، منٹو اپنے قارئین کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ یہ بدنام لوگ انسان بھی ہیں، ان سے کہیں زیادہ انسان جو اپنی برائیوں کو منافت کے نقاب میں چھپا کر رکھتے ہیں۔”
مصنف محمد حنیف کہتے ہیں ”منٹو کو پڑھ کر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ضروری نہیں ادب ہمیشہ تابعدار ہو۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ادب ہمیشہ نفیس کہانیاں ہی بیان کرے۔”
منٹو سختی سے تقسیم کا مخالف تھا اور اس نے نئے بننے والے پاکستان جانے سے انکار کردیا تھا۔ ایک شام وہ اپنے اخبار کے دفتر کے ہندو ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ ایسے میں ایک آدمی نے کہہ دیا کہ دوستی نہ ہوتی تو وہ منٹو کو قتل کردیتا۔ اگلے ہی دن منٹو نے سامان باندھا اور گھر والوں کو لے کر لاہور آگیا۔ یہاں پر اس نے تقسیم کی بربریت اور لایعنیت بیان کرتی کہانیاں لکھیں۔
”ٹوبہ ٹیک سنگھ” میں پاکستان کے پاگل خانے سے ہندو اور سکھ مریضوں کو بھارت منتقل کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک سکھ کچھ یوں غصے میں آتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ منٹو نے تقسیم کو پاگل پن کہا۔ اس نے لکھا کہ ایسا مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان قتل ہوئے۔ یوں کہو کہ دو لاکھ انسان ذبح ہوئے ہیں۔ اور یہ افسوسناک نہیں کہ دو لاکھ انسانوں کو بے دریغ کاٹ دیا گیا بلکہ اصل المیہ یہ ہے کہ مرنے والوں کو بلاوجہ قتل کیا گیا۔
پچاس کی دہائی کے شروع میں منٹو نے ”انکل سام کے نام خطوط” کے عنوان سے کئی مضامین لکھے جو پریشان کن حد تک اس سمت کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں پاکستان کو آگے بڑھنا تھا۔ 1954 کے ایسے ہی ایک خط میں منٹو لکھتے ہیں کہ امریکا پاکستان کے ساتھ یقینی طور پر فوجی امداد کا معاہدہ کرلے گا کیونکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کی سالمیت کے بارے میں فکر مند ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جب ہمارے ملا روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ جو ہیں۔ منٹو نے ایک اور مضمون میں ایسے مستقبل کی پیش گوئی جہاں موسیقی اور فنون لطفیہ، ادب اور شاعری پر پابندی ہوگی۔
ستم ظریفی یہ ہے اگرچہ کہ منٹو مستقبل کے پاکستان کی پیش گوئی کرچکا تھا تاہم اب اس جیسے کسی مصنف کے لیے کام کرنا ستر سال پہلے کی نسبت مزید مشکل ہے۔ منٹو کی بیٹی نصرت کہتی ہیں ان کے والد کے زمانے کی نسبت حالات اب زیادہ سخت ہوچکے ہیں اور اب ہم ایک قوم کی حیثیت سے زیادہ غیر روادار ہیں۔
آخری دنوں میں شراب کی لت اور معاشی تنگ دستی نے اسے خاصا ستایا تھا۔
جنوری 1955 میں منٹو کا انتقال ہوا، مرنے سے چھ مہینے پہلے اس نے اپنے کتبے کی عبارت تحریر کی تھی۔
”یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے۔ اس کے سینے میں فن افسانہ نگاری کے سارے اسرار رموز دفن ہیں۔ وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا۔’
اصل مضمون پڑھنے کیلئے کلک کریں
بشکریہ گارجین ۔