بھارتی سنسر بورڈ نے فلم اڑتا پنجاب کو نواسی مقامات سے کاٹنے کی ہدایت کی تھی۔ جس کی وجہ سے فلم بنانے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ سنسنر بورڈ کا کہنا تھا کہ فلم میں کئی مقامات پر لفظ پنجاب کو توہین آمیز انداز میں ادا کیا گیا ہے جس سے ملک تعصب پروان چڑھے گا۔
فلم بھارتی پنجاب کے نواجوں میں تیزی سے پھیلتے نش کی لت پر بنائی گئی ہے۔ جس میں گالیاں اور بوسو کنار سمیت کسی حد تک عریانیت ہے۔ تاہم یہ اس سے کم ہے جو ہم سب کچھ اپنی عام زندگی میں دیکھتے ہیں۔ درحقیقت اس کی وجہ سنسنر بورڈ کے چیئرمین پہلاج نیہلانی ہیں۔ جنہوں نے پوری زندگی میں بس ہر ہر مودی اور میرا بھارت جوان جیسے گانے پکچراز کیے ہیں۔ ان صاحب کا مسئلہ فلم سے نہیں بلکہ اگلے سال کے ریاستی انتخابات سے منسلک تھا۔ جہاں بی جے پی اور ایکالیوں میں انتخابی اتحاد ہے۔
سیاست کی وجہ سے فلم کو تباہ کرنا کیا درست ہے؟ بی جے پی کے دور میں کئی فلموں کے ساتھ یہ ہو چکا ہے۔ مستی زادے میں سنی لیونی کے کئی سین کاٹ دیئے گئے۔ جیمز بونڈ کی فلم میں بھی بوس کنار کو کم کیا گیا۔ ایسے اگر فنون لطیفے پر پابندی لگائیں گے تو شاید پھر ہم صرف نریند مودی کو ہی دیکھتے رہ جائیں گے۔
اس پر سب سے خوبصورت بات شاہد کپور نے کی جن کا کہنا تھا کہ آخر ہم ریاستی معاملہ ہی کیوں دیکھ رہے ہیں بھارتی مسئلہ بھی دیکھیں۔