نوا ز شریف اب پیش نہ ہوئے تو وارنٹ جاری ہوسکتے ہیں

سینئر تجزیہ کار حامد میرنے کہا ہے کہ نوا ز شریف اگر اب نیب میں پیش نہ ہوئے تو بعض لیگل ایکسپرٹ کے مطابق ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوسکتے ہیں ن لیگ کو عدالت سے محاذ آرائی کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگااب انہیں نیب میں بھی پیش ہونا پڑے گا کیونکہ اب پیش نہ ہونے کاکوئی قانونی جواز ان کے پاس موجود نہیں،سینئر تجزیہ طلعت حسین کا کہنا تھا کہ نوازشریف کے پاس فل کورٹ کا آپشن موجود ہے،قانونی راستہ شریف خاندان کو نیب کی طرف ہی دکھیل رہا ہے۔

سینئر تجزیہ کار سلیم صافی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے پاس اب سیاسی آپشن موجود ہے قانونی آپشن کی طرف مسلم لیگ ن اب توجہ نہیں دے گی، ان کا کہنا تھا کہ اب مسلم لیگ ن کے رہنما نیب کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔وہ نظر ثانی کیس کی اپیل مستردہونے کے بعد جیو سے بات چیت کر رہے تھے۔مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نظام عدل تبدیل ہونا چاہئے، یہاں وزیر اعظم کو انصاف نہیں ملتا توعام آدمی کو کیا انصاف ملے گا؟

سینئر تجزیہ کار حامد میر کا کہنا تھا کہ عدالت نے ان کی یہ بات بھی تسلیم کی کہ رویو پٹیشن میں تین ججوں کا نہیں پانچ ججوں کا بینچ بنایا جائے اور ان کی یہ بات تسلیم کی گئی ، نوا ز شریف اگر اب نیب میں پیش نہ ہوئے تو بعض لیگل ایکسپرٹ کے مطابق ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوسکتے ہیں اور اس کا اثر ان کی سیاست پر بھی پڑے گا،حامد میر کا کہنا تھا کہ نظر ثانی کیس کا فیصلہ مسترد ہونے کا اثر این اے 120کے الیکشن پر بھی پڑے گا،ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے کچھ ایسے رہنما ہیں جن کے ماضی  پر غور کریں توپتا چلتا ہے کہ وہ پارٹیاں تبدیل کرتے رہے ہیں لیکن اس دفعہ ان کی کوئی حوصلہ افزا ئی نہیں کی گئی اور اس کا کریڈٹ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عدالتی فیصلے کے باجود کسی بھی پارٹی میں کریک ڈالنے کی کوشش نہیں۔

حامد میر نے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر تبصرے کا حق ہر شخص کو حاصل ہے لیکن اس کی تشریح صحیح ہونی چاہئے، لیگی رہنمائوں کی جانب سے جو تبصرے کئے جارہے ہیں اس کیس میں وہ درست نہیں ہیں،ن لیگ کے وزراء نے جو گفتگو کی ہے اس سے تو یہ ہی محسوس ہورہا ہے کہ ن لیگ عدالت سے محاذآرائی کا ارادہ نہیں رکھتی اور ان کے رہنمائوں کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں فیصلے سے اختلاف ہے لیکن ہم فیصلہ تسلیم کرتے ہیں اور ظفر اللہ خان کا یہ کہنا کہ یہ ریفرنس مولوی تمیزالدین خان اور ذوالفقار علی بھٹو جیسا ہے تو مولوی تمیز الدین کیس کی پٹیشن تو اسمبلی کے خاتمے کے خلاف تھی اور ذولفقار بھٹو کا کیس تو پھانسی کا کیس تھا، نوا ز شریف کیس میں نہ تو اسمبلی کو ختم کیا گیا ہے نہ ان کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ظفر اللہ خان یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس وقت سپریم کورٹ کے جسٹس انوار الحق کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو نے تین خطوط لکھے تھے اورکہا تھا کہ انوار الحق کو مجھ سے ذاتی عناد ہے اور میں ان کو نہیں مانتا جبکہ آج کے چیف جسٹس ثاقب نثار 1993میں نواز شریف کے ذاتی وکیل تھے، جب اسمبلی کو تحلیل کیا گیا تھا، جسٹس ثاقب نثار کو نوا ز شریف نے ہی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا تھا، حامد میر کا کہنا تھا کہ اب مسلم لیگ ن کے پاس کوئی قانونی راستہ موجود نہیں، اسی طرح ان کی طرف سے کہاگیا تھا کہ ہم نیب عدالت میں پیش نہیںہوں گے لیکن رویو مسترد ہونے کے بعد 19 ستمبر کو انہیں نیب میں پیش ہونا پڑے گا کیونکہ اب پیش نہ ہونے کاکوئی قانونی جواز ان کے پاس موجود نہیں، حامد میر کا کہنا تھا کہ نوا ز شریف اگر اب نیب میں پیش نہیں ہوئے تو بعض لیگل ایکسپرٹ کے مطابق ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوسکتے ہیں اور اس کا اثر ان کی سیاست پر بھی پڑے گا، ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کواداروں کے ساتھ مزاحمت پر نقصان کا اٹھانا پڑے گا ، مزاحمت کرنا چاہتے ہیںتو سیاسی میدان میں سیاسی مخالفین کے خلاف کریں، حامد میر کا کہنا تھا کہ نظر ثانی کیس کا فیصلہ مسترد ہونے کا اثر این اے 120کے الیکشن پر بھی پڑے گا، مسلم لیگ ن کی جماعت ابھی تک قائم ہے لیکن چوہدری نثار کی مریم نوا ز پر تنقید کا فائدہ مریم نوا ز کو حاصل ہوا ہے اور چوہدری نثار پارٹی کے اندر کوئی بڑا ڈینٹ  بھی ڈالنے میں کامیاب نہیںہوئے ہیں ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر عدالت کے ساتھ محاذ آرائی کی گئی تو پارٹی میں کچھ ایسے پارلیمانی لیڈ رموجود ہیں جو نئی پارٹی بنا سکتے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف بھی یہ موقف دے چکے ہیں کہ عدالتی فیصلے میں ہمارے خلاف فوج یا عدالت نے کوئی سازش نہیں کی ہے، ن لیگ کو چاہئے کہ وہ سیاسی میدان میں ہی اپنے مخالفین سے جنگ لڑے اور اگر وہ اس پالیسی میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ2018کے الیکشن میں مسلم لیگ نوا زسیاسی مخالفین کو ٹف ٹائم دے اور بھاری اکثریت کے ساتھ  پارٹی واپس آجائے، ان کا کہنا تھا کہ اس وقت نواز شریف کو چاہئے کہ وہ اپنی پارٹی کی مدد کریں اور اگلے الیکشن کا انتظار کریں اور جو موجودہ پالیسی شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال لے کر چل رہے ہیں اس سے اگلے الیکشن میںپارٹی کو فائدہ حاصل ہوگا، کیا مسلم لیگ ن میں دھڑے بندی ہورہی ہے کا جواب دیتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن میں کچھ ایسے رہنما ہیں جن کے ماضی سے پتا چلتا ہے کہ وہ پارٹیاں تبدیل کرتے رہے ہیں لیکن اس دفعہ ان کی کوئی حوصلہ افزا ئی نہیں کی گئی اور اس کا کریڈٹ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عدالتی فیصلے کے باجود کسی بھی پارٹی میں کریک ڈالنے کی کوشش نہیں کی، البتہ مسلم لیگ ن میں بے چین گروپ بھی ہے جس کا موقف یہ ہے کہ ہمیں اپنی پالیسی کا جائزہ بند کمرے کے اندر کرنا چاہئے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے سیاسی مخالفین کو فائدہ ہو ، یہ گروپ چوہدری نثار کی رائے سے متفق نہیں ہے اور کہا ہے کہ نثار دشمنوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں، اس گروپ کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار تین چار دفعہ تنقید کر چکے ہیں جس سے پارٹی کو نقصان ہوا ہے ،حامد میرنے بتایا کہ بے چین گروپ کو مریم نوا ز کی پالیسی پر بھی تحفظات ہیں لیکن چوہدری نثار کی تنقید کی بعد وہ مریم نواز کی حمایت کر رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: