تحریر: یوسف منہاس
پناما لیکس کے بعد وزیر اعظم اور ان کا خاندان اس قدر تیز دوڑا کہ بند گلی میں داخل ہونے کے بعد بھی انہیں قطعی طور پر یہ احساس نہ رہا کہ سامنے دیوار ہے اور نکلنے کا راستہ نہیں ۔۔ ایسے میں تین بار وزارت عظمی کے منصب پر فائر رہنےوالے وزیر اعظم سے توقع تو یہ تھی کہ وہ بذات خود کوئی مستحسن فیصلہ کرتے اور اپنی پارٹی کے ساتھ ساتھ خاندانی وقار اور توقیر کو بچاپاتے ۔۔۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے اردگرد مصاحبوں کا ٹولہ انہیں اس نہج پر لے گیا جہاں سے واپسی ممکن نہ رہی ۔۔
یہ دعوی کس قدر مہمل اور غیر عقلیت پسندانہ لگتا ہے کہ ایک طرف آپ آئین و قانون کی بالا دستی کے سامنے سرنگوں کرنے کے دعوی کریں۔۔ اور دوسری جانب شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی فوج ظفر موج ملکی اداروں پر انتہائی عامیانہ گفتگو اور تنقید کرے ۔۔اور وزیر اعظم کی جانب سے ان تمام باتوں کو کوئی نوٹس نہ لیا جائے ۔۔ ایسا ہو نہیں سکتا ۔۔بلکہ بات اس سے آگے بڑھی اور حکومت نے چند تنخواہ دار قصیدہ گو افراد کی ایک جماعت بھی تیار کر لی جو حقائق توڑ مروڑ کر بیان کرتی رہی ۔۔۔
حالات میں اس وقت اور بھی نازک موڑ آ گئے جب حکومتی کارپردازوں نے پناما لیکس کی تحقیقات کرنےوالی جے آئی ٹی کو بھیانک نتائج بھگتنے کی کھلے عام دھمکیاں دیں ۔۔۔ جو وزیر اعظم کے اس بیان کی قطعٰ نفی تھے جو انہوں نے آئین وقانون کی بالا دستی اور قانون کے سامنے سرنگوں کر نے کے حوالے سے وقتا فوقتا جاری کئے ۔۔۔
جوں جوں سپریم کورٹ میں مقدمہ آگے بڑھا حکومتی وزرار ، اور ترجمانوں کی زبان کی شیرینی جاتی رہی اور زہر اگلنے والی زبانوں نے حالات وواقعات کی سنگینی کا احساس کئے بغیر اپنی روش کو قائم رکھا ۔۔ یہ نزاعی صورت حال کسی طور بھی وزیر اعظم کے حق میں نہ تھی ۔۔
بالخصوص اس وقت جب وزیر اعظم کی پارلیمان میں تقریر اور ان کے بچوں کے متضاد بیانات ان کے لئے نوشتہ دیوار بن گئے ۔۔ اگرچہ اس سلسلے میں وزیر اعظم نواز شریف کو کئی حلقوں کی جانب سے مستعفی ہونے کے اشارے اور مشورے بھی دیے گئے ۔۔۔ مگر وزیر اعظم نے اپنے ارد گرد انا کی فصیل اس قدر اونچی کر لی کہ شاید ان کی قوت سماعت تک کوئی صائب مشورہ نہ پہنچ پایا ۔۔ ہونی کو کون ٹالتا ۔۔۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا ۔۔
ان کے نزدیکی ساتھی بھی بے اختیار یہ کہہ اٹھے کہ اب وزیر اعظم کو کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے ۔۔ حالات زیادہ بگڑنے لگے تو وزیر اعظم بھی دانش و فہم کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے اور جے آئی ٹی اور مخالفین پر برس پڑے ۔۔ وزیر اعظم پاکستان کا منصب اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ انتہائی نا مساعد حالات میں بھی انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر گامزن رہتے ۔۔۔ لیکن وزیر اعظم انسانی جبلت میں پوشیدہ خامیوں کے ہاتھوں یر غمال بنے رہے ۔۔
یہ اعتراف کر لینے میں کوئی امر مانع نہیں کہ جمہوریت ۔ جمہوریت کرنے والی جماعت جمہوری اقدار سے کوسوں دور نظر آئی۔۔۔ ورنہ ایسا قحط الرجال تو نہ تھا ۔۔۔ کہ کسی کو بھی پارٹی کے اندر سے وزارت عظمی کے سنگھاسن پر بٹھا کر پارٹی اور خاندانی وقار کو بچانے کے ساتھ ساتھ ملکی توقیر کو بھی بچا لیا جا تا ۔۔۔