فیض اب کمیونسٹ نہیں رہا

محسن نواز

فیض احمد فیض اردو کے اہم ادیب اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتی انسان تھے۔ انہوں نے ایک نظرئیے کا انتخاب کیا اور پھر عمر بھر اس نظرئیے کے ساتھ جڑے رہے۔ وہ آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی ( بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان ) کے رکن تھے اور کمیونزم کے عملی اطلاق کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ اپنے نظرئیے کی خاطر فیض نے مصائب سہے، جیل گئے اور جلاوطنی بھی کاٹی لیکن نظرئیے سے ان کی وابستگی آخر تک برقرار رہی۔ ہو سکتا ہے کہ زندگی میں اتنا کچھ دیکھنے کے بعد آخری برسوں میں وہ پاکستان میں ایک کمیونسٹ انقلاب برپا ہونے کی اتنی امید نہ رکھتے ہوں ( نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی ۔ نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی ۔ غبار ایام ، لاہور ، فروری ۱۹۸۲)  لیکن انسانوں کی برابری اور سماجی انصاف کے لیے کمیونزم پر ان کا اعتقاد کمزور پڑنے کی کوئی شہادت بظاہر نظر نہیں آتی۔

فیض پاکستان میں مزاحمت کی ایک اہم علامت ہیں، صرف اپنی شاعری کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ اپنی عملی جدوجہد کی بنیاد پر بھی۔ سر وادی سینا میں الیگزانڈر سرکوف نے فیض سے اپنی ملاقات میں ان کا ایک جملہ لکھا ہے ” اگر جیل سے بھی بدتر کوئی چیز ہوئی تو پھر یقیناً برا ہو گا، لیکن تم جانتے ہو جدوجہد بہرحال جدوجہد ہے”۔ اور فیض نے صرف یہ کہا نہیں، عملی طور پر کرکے دکھایا۔ فیض کو جب بھی یاد کیا جائے گا، ان کے نظرئیے اور اس کی خاطر ان کی جدوجہد کا ذکر بھی ہو گا۔ فیض کو جاننے کے لیے کمیونزم کو جاننا بھی ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر شاید فیض، فیض نہ ہوتے۔

faiz-festival-2

اس تمہید کا مقصد فیض فاونڈیشن کے زیر اہتمام فیض امن میلے اور فیض گھر کی ان تقریبات پر بات کرنا ہے جو فیض شناسی کے نام پر کی جاتی ہیں۔ جو لوگ فیض شناسی کو پھیلانے کا مشن رکھتے ہوں، وہ چاہے کمیونزم اور سوشلزم پر یقین نہ بھی رکھتے ہوں،  اس کے ذکر کے بغیر فیض کا پیغام پہنچانے کا دعوی نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں سوشلزم کی جدوجہد اور فیض لازم و ملزوم ہیں، اگر بائیں بازو کی تحریک فیض کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی تو فیض شناسی کی تقریبات سوشلزم کے ذکر کے بغیر کیسے مکمل ہو سکتی ہیں۔

بدقسمتی سے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پاکستانی بائیں بازو کی اکثریت نے این جی اوز کے ذریعے سماجی کام کو انقلاب کا متبادل سمجھ لیا اور آج سابق ” لیفٹیوں” کی اکثریت این جی اوز کے دامن سے ہی وابستہ ہے۔ ان این جی اوز کے بیشتر ڈونرز امریکا، کینیڈا، مغربی یورپ اور جاپان سے تعلق رکھتے ہیں، ایسے میں کمیونزم اور سوشلزم کے الفاظ ان این جی اوز کے لیے شجر ممنوع بن گئے۔ ( این جی اوز کے چند مثبت کاموں سے انکار مقصود نہیں لیکن سابق سوشلسٹوں کا استعماری قوتیں قرار دی گئی ریاستوں کے نمائندوں سے تعلق اور فنڈنگ ایک ” ٹریجی کامیڈی ” سے کم نہیں)۔

faiz-festival

کچھ ایسا ہی فیض کے وارثوں کے ساتھ ہوا۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ لازم نہیں  فیض کی اولاد اور ان کی اولاد کمیونزم اور سوشلزم پر ویسا ہی اعتقاد رکھے جیسا فیض رکھتے تھے، ہر شخص اپنے نظریات اور زندگی کا راستہ طے کرنے میں آزاد ہے، لیکن یہاں بات فیض احمد فیض کی ہو رہی ہے اور فیض ایک جانے مانے کمیونسٹ تھے۔ سو اگر ان کے نام پر کوئی فاونڈیشن بنائی جاتی ہے اور ان کے نام پر اگر کسی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے تو لازم ہے کہ ان کے نظریات کا بھی ذکر ہو۔ ( لیکن جب فیض فاونڈیشن کی ڈونر یورپی یونین ہو تو اس کے مقاصد میں سوشلزم کا لفظ کیسے لکھا جا سکتا ہے)۔ امن، محبت، رواداری اور سوشل جسٹس جیسے الفاظ  فیض کے نظرئیے اور زندگی کا حصہ تو ہیں لیکن  یہ پورا فیض نہیں ۔

یہ سطریں لاہور کے الحمرا میں فیض امن میلے کی دو روزہ تقریبات میں حصہ لینے کے بعد تحریر کرنے کو جی چاہا۔ میلے کے مثبت پہلو بہت سے تھے، مختلف سیشنز میں مقررین نے بہت علمی اور دل کو چھو لینے والی باتیں کیں، موسیقی، رقص اور دیگر فنون لطیفہ سے بھی خوب لطف اٹھایا لیکن صرف پنجابی زبان میں مزاحمتی شاعری کے عنوان سے ہونے والے ایک سیشن میں لگا کہ یہ سوشلسٹ فیض کے نام پر ہونے والی کوئی تقریب ہے، ورنہ باقی سیشنز شاعر فیض کی یاد میں ہی تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ فیض کے وارثوں نے فیض امن میلے اور فیض گھر سے کمیونزم اور سوشلزم کو دیس نکالا دے دیا ہے۔

faiz-festival-1

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: