کشمیر میں اسکول کون جلاتا ہے؟

رفعت فرید، آزاد عیسیٰ (الجزیرہ)

 

رات کو آگ لگنے کے بعد ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ اردگرد کے تین گاؤں سے لوگ ہاتھوں میں بالٹیاں اٹھائے دوڑتے پھر رہے تھے تاکہ اسکول کو بچایا جا سکے۔ بالآخر جو بچا وہ صرف راکھ تھی۔ عمارت تباہ ہو چکی تھی اور در دیوار تنور کے اندر  منظر پیش کر رہے تھے۔

مقبوضہ کشمیر کا گورنمنٹ بوائز مڈل ہائی اسکول ’’بٹ گم‘‘  کے 31سالہ استاد تحسین علی نے کہا کہ جب فائر بریگیڈ پہنچی تو بچانے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا تھا۔30اکتوبر کی رات یہ آگ لگی۔

اسکول کے ایک دوسرے 35سالہ استاد  تسلیم عارف  نے بتایا کہ 8سے 14سال کے بچے بھی آگ بجھانے کی کوشش میں تھے، کئی اس عمل میں زخمی ہوئے، کچھ کے اپنے ہاتھ جل گئے۔ وہ اپنا اسکول بچانا چاہتے تھے، ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، ایک گاؤں کے لئے اسکول حاصل کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں، ایک جھٹکے میں سب تباہ ہو گیا۔

’’بٹ گم‘‘ کے اس اسکول میں 88بچے پڑھتے تھے اور تین ماہ کے دوران بھارتی زیر انتظام کشمیر میں یہ پچیسواں اسکول تھا جسے آگ لگا دی گئی۔

31اکتوبر کو اننت ناگ میں ہائیر سیکنڈری اسکول  کو آگ لگا کر راکھ بنا دیا گیا، یہ چھبیواں اسکول تھا جو تین ماہ میں اپنے انجام کو پہنچا۔

حکام کے مطابق  ان واقعات میں اب تک 12اسکول مکمل تباہ جبکہ باقی جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔ اس عمل سے 4ہزار بچے متاثر ہوئے جبکہ 7لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔

ہائیر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل شوکت حسین شاہ کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد میں دو دن تک سو نہیں سکا، نہ کچھ کھایا۔ یہ ایک سانحہ ہے۔ ہم اسکول کا بہت خیال رکھتے تھے۔ یہ درس گاہ بچوں کی امانت تھی۔‘‘

’’لوگوں نے اسکول بچانے کے لئے جان کی بازی لگائی، انہوں نے لیبارٹری، ریکارڈ اور لائبریری بچا لی لیکن 8کلاس روم راکھ بن گئے۔‘‘

school1

کوئی بھی اس جرم  کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پولیس بھی تحقیقات کو منظر عام پر لانے کے لئے تیار نہیں۔ اس وجہ سے ہر کوئی اپنے مجرم ڈھونڈ رہا ہے۔ تاہم یہ اسکول چار ماہ سے جاری بغاوت کا نشانہ بن رہے ہیں۔

جولائی میں برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں احتجاج کی لہر شروع ہوئی جس میں 95افراد  مارے جا چکے ہیں جبکہ 12000زخمی ہیں، ان میں سینکڑوں پلیٹ گن کا نشانہ بننے کی وجہ سے بصارت سے محروم ہو گئے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ باغی افراد اسکول کو آگ لگا رہے ہیں تاکہ کشمیر سےمعمول کی زندگی کے تمام تاثرات کو ختم کیا جا سکے۔مقبوضہ  کشمیر میں مسلسل کرفیو ، انٹرنیٹ اور موبائل کی بندش ہے۔ بیشتر بچے بھی اسکول نہیں جا رہے۔ ایسے میں بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ آزادی  حاصل کرنے والے حالات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

تاہم حریت رہنما ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی سرپرستی میں اسکولوں کا جلایا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کو مزید اذیت دی جائے اور ان کی توجہ حقیقی مسئلے سےہٹائی جا سکے۔

تاہم دونوں جانب سے کچھ بھی کہا جائے، ہائیر سیکنڈری اسکول کی طالبہ شریقہ بشیر کے والد بشیر احمد بھٹ کا کہنا ہے کہ اسکول نہیں ، ان کے بچوں کے مستقبل کو آگ لگائی جا رہی ہے۔

کشمیر میں 5لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں، دوسری جانب آزادی مانگتے لوگ ہیں، ان میں کچھ مسلح گروہوں کی پاکستان کی حمایت بھی حاصل ہے، تاہم یہاں موجود بیشتر افراد بھارت سے نالاں ہیں، اس جنگ میں ساٹھ ہزار افراد  مارے جا چکے ہیں ۔ ایسی تناؤ بھری صورت حال میں صرف اسکول ہی بچوں کے لئے ایک خوشی کا ٹھکانہ تھے۔

بشیر نے بتایا کے انہوں نے بھی 1976میں ہائیر سیکنڈری اسکول اننت ناگ سے ہی تعلیم  مکمل کی تھی۔ ان کی  بڑی بیٹی شائشتہ اور بیٹا شاکر بھی یہاں سے ہی فارغ التحصیل ہیں۔ ’’یہ سے میری چھوٹی بچی بالکل ٹوٹ گئی ہے۔ وہ ہر وقت پریشان رہتی ہے۔

تحسین علی کا کہنا ہے کہ اگر یوں ہی چلتا رہا تو بچے کوئی اور سرگرمی ڈھونڈ لیں گے، کوئی کام پر چلا جائے گا  تو کوئی غلط  ہاتھوں میں چلا جائے گا۔اب اسکول نہ ہونے سے بچوں کو دوپہر کا کھانا بھی نہیں ملتا تو ان تمام کے لئے بہت ضروری تھا۔

نیودلی کی او پی جندل یونیورسٹی کے وجاہت احمدکا کہنا ہےکہ 1990کی مسلح تحریک کے دوران بھارتی فوج نے اسکول جلائے اور وہاں اپنی چوکیاں بنائیں۔ ایسی حرکت مقامی لوگوں کے لئے ہراساں کرنے کے مترادف ہوتی ہے۔ جو بھی یہ اسکول جلا رہا ہے وہ ماضی اور حال کو لوگوں کے ذہنوں میں تازہ کر رہا ہے۔ اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے۔

سری نگر میں موجود سیاسی تجریہ کار شوکت حسین کا کہنا ہےکہ فوج ایک بار پھر دیہی علاقوں میں کیمپ قائم کر رہی ہے۔ اس بار اسکول پہلے جلا دیئے گئے ہیں اور جلد ہی یہاں پھر سے چوکیاں بنا لی جائیں گی کیونکہ بیشتر مکمل جلائے گئے اسکولوں پر اب فوج کا قبضہ ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں اکتوبر سے دسمبر تک فائنل امتحانات ہوتے ہیں لیکن اس سال احتجاج کے باعث ان کے ملتوی ہونے کا خدشہ ہے۔ سری نگر کے رہائشی گلزار کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا آٹھویں اور بیٹی چھٹی جماعت میں ہے لیکن وہ چار ماہ سے اسکول نہیں گئے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ اسکول کھلیں گے۔ متنازع علاقے میں رہنے کی یہ قیمت ہم کئی دہائیوں سے ادا کر رہے ہیں۔

 

انگلش میں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: