ٹرمپ جیت گیا، دائیں بازو کی تحریک کا کیا بنے گا؟

کریڈنیوٹن (الجزیرہ)

ٹیکساس کے دیہی علاقے پینڈل میں ٹرمپ کی جیت کا بھرپور جشن منایا گیا۔ یوں لگا کہ جیسے یہاں کے لوگ خود صدر بن گئے ہوں۔ یہ ٹرمپ کا علاقہ ہے جہاں انتہائی قدامت پسند لوگ رہتے ہیں۔ تمام پولز غلط ثابت ہوئے اور کلنٹن کے حامیوں کے برعکس یہاں لوگوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔

اس سب کے باوجود ہر ایک کے ذہن میں یہ سوال ضرور ہے کہ اب دائیں بائیں بازو کی تحریک کا کیا بنے گا؟ یہ تحریک ایک امریکی صدر کو جتوا چکی ہے؟ اب اس نئی طاقتور سیاسی قوت کا مستقبل کیا ہو گا؟

کوڈی نیول 20سال سے دائیں بازو کی تحریک سے منسلک ہیں اور انہوں نے پوری ریاست میں بہت کام کیا ہے۔ انہوں  نے ٹرمپ کی بھرپور حمایت کی اور اب انتہائی خوش ہیں کہ وہ صدر منتخب ہو گئے ہیں۔کوڈی کے مطابق ’’ٹرمپ کی جیت ہمارے نقطہ نظر کی جیت ہے۔‘‘

’’یوں لگ رہا ہے کہ ہمارے کندھوں سے بوجھ ہٹ گیا کیونکہ ہم نے یہ ساری محنت صرف اپنی آواز اشرافیہ تک پہنچانے کے لئے لڑی۔‘‘

کوڈی نے حال ہی میں’’وائٹ لائف میٹرر‘‘ نامی تحریک سے منسلک ہوئے ہیں جو ’’بلیک لائف میٹر‘‘ کے جواب میں بنائی گئی ہے۔ اس گروپ کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’حال میں  ہم نے اپنی تنظیم کو برطانیہ میں بھی شروع کیا ہے۔‘‘

ساؤتھ پاورٹی لا سنٹر (ایس پی ایل سی) نے اس تنظیم کو حال ہی میں اسے ’’منافرت پر مبنی نسل  پرستانہ گروہ‘‘ قرار دیا ہے۔ تاہم کوڈی سے تسلیم نہیں کرتے بلکہ ان کا اصرار ہے کہ تحریک سفید فام لوگوں کی شناخت کے تحفظ کی خاطر بنائی گئی ہے۔

انہوں نے اپنے احتجاج کو قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ قوم پرست ہونے کا مطلب نسلی تعصب نہیں۔ ہم سفید فام  کی تہذیب  و تمدن کو لاحق خطرات ختم  کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سب کے حقوق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن سفید فام آبادی کے حقوق کو سلب کیا جا رہا ہے۔

کوڈی کے مطابق ٹرمپ کی جیت سے ہمارے لئے اب مؤقف پیش کرنا مشکل ہو گا کیونکہ اب بائیں بازو والے بہت مزاحمت کریں گے۔ تاہم تحریک جاری رکھی جائے گی۔ اگر یہ کسی حد تک نسل پرستانہ بھی ہے تو کچھ نہیں ہوتا۔ تاہم  ہمارے لوگ نسل پرست نہیں۔

ویسٹ فلیڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جارج مائیکل نے  سفید فام نسل پرستی پر بہت سی کتب لکھی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ عام امریکی کوڈی کے نظریات کو تسلیم نہیں کرتے۔ تاہم ایک طبقہ کئی سالوں سے یہ جدوجہد کر رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وائٹ لائف میٹرز کے بیشتر ارکان نیو نازی ہیں لیکن ابھی اس گروہ نے کوئی قانون نہیں توڑا۔ اس سفید فام نسل پرستی کا کوئی بھی قابل قبول چہرہ موجود نہیں۔

مائیکل کے مطابق ان کی طاقت کی وجہ ٹرمپ کی تحریک ہے۔ ’’اب ٹرمپ کی فتح کے بعد یہ مزید طاقتور ہو گئے ہیں۔ ان کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ ہم امریکی سیاست پر اثرانداز ہو چکے ہیں۔‘‘

مائیکل نے کہا کہ ٹرمپ کی تحریک کے دوران یہ انتہائی دائیں بازو کا طبقہ پہلی بار مل کر بیٹھا۔ سالوں بعد یہ پھر اکٹھے ہوئے۔ انہوں نے رابطہ مربوط بنائے۔ اب آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ یہ رابطے بحال رہتے ہیں یا نہیں۔‘‘

’’یہ کئی سالوں تک چیٹ رومز او ربلاگ لکھنے تک ہی محدود تھے۔ تاہم اب یہ مزید طاقتور ہوئے ہیں اور شاید آئندہ آپ انہیں سڑکوں پر مزید طاقت کے ساتھ آتے دیکھیں گے۔‘‘

پیٹر مونٹگمری بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امریکی محقق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ جیسے معروف افراد کے جیتنے کی دنیا میں روایت موجود ہے۔ تاہم ٹرمپ نے ایمگریشن پالیسی کے حوالے سے  بات کر کے مقامی افراد کے دل جیت لئے۔

’’ٹرمپ نے سیاست کے تمام اصولوں پر وار کیا اور جیت گیا۔ ہم نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ‘‘انہوں نے بتایا کہ  انتہائی دائیں بازو والے اپنے الیکٹرونک میڈیا کی مدد سے ٹرمپ کی حمایت کے لئے لوگوں کے گھروں تک پہنچے۔  انہوں نے ایسی مہم چلائی جو امریکی میڈیا بھی ہلیری کی حمایت میں چلانے میں ناکام رہا۔

’’الیکس جونز دائیں بازو کا ایک ریڈیو پروگرام ’’انفووار‘‘کرتا ہے۔ وہ ہر وقت من گھڑت کہانیاں سناتا ہے۔ تاہم ٹرمپ اس کے پروگرام میں گیا۔وہاں بیٹھ کر باتیں کی۔‘‘
انفو وار کے ہوسٹ نے نوگیارہ  حملے اور بوسٹن میراتھون بم حملے کو امریکی ریاست کی سازش قرار دیا تھا تاکہ عوام  کو گمراہ کیا جا سکے۔

ٹرمپ کی جیت کے بعد منٹگمری کے خیال ہے کہ اب یہ لوگ کہیں بھی نہیں جائیں گے بلکہ یہ مزید طاقتور ہو گئے۔ ٹرمپ کے حامی اور مخالفین اب اس بات پر متفق ہیں کہ اس انتخاب کے امریکا پر دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔

ری پبلکن جیت تو گئے لیکن تین دھڑوں میں بٹ گئے۔ ایک طرف بش خاندان اور ٹی پارٹی ہے جو آزاد خیال لوگ ہیں جبکہ تیسری طرف ٹرمپ کے حامی ہیں۔

اس جیت کے بعد ’’ٹرمپ والے‘‘ اب  سامنے آ گئے ہیں۔ پروفیسر مائیکل کے مطابق اب تحریک بن گئی ہے۔ ایمگریشن اور تجارت کے معاملات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔ اب انتہائی دائیاں بازو طاقتور ہے اور اسے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ لوگ یقیناً اب بش کو یاد کریں گے۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: