پراسیچیوٹ ہوں، چلو گے؟

سینئر صحافی طاہر قیوم صاحب کئی دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاحت کے شوقین ہیں اور بیرون ملک کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں وہ یورپ کے دورے پر نکلے ہوئے ہیں۔ اس دوران انہوں نے یورپ کو ایک پاکستانی کی نظر سے دیکھا اور دنیا ٹوڈے کے لئے لکھا ہے۔ یہ سفرنامہ قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

چاکلیٹ ویلج تلاش کرنے پر جو خوشی محسوس ہو رہی تھی، اس پر اس وقت اوس پڑ گئی، جب تین چار منزلہ عمارت کا لکڑی سے بنا صدر دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سامنے ریسیپشن پر بیٹھی نازک اندام سی چھوئی موئی دوشیزہ نے کہا ہیلو سر! ویلکم ٹو چاکلیٹ میوزیم۔

بیلجیم کی چاکلیٹ بہت مشہور ہے، ان کا ماٹو بھی یہی ہے کہ وی میک ورلڈ فائنیسٹ چاکلیٹ۔ میرے ذہن میں یہی تھا کہ چاکلیٹ ویلیج کوئی چاکلیٹ بنانے کا کوئی قدیم گاﺅں ہوگا، جہاں بڑی بڑی بھٹیاں لگی ہوں گی، مرد چاکلیٹ تیار کرکے سانچوں میں ڈال رہے ہوں گے، عورتیں ان کی پیکنگ کا کام کررہی ہوں گی لیکن یہاں تو کہانی ہی دوسری تھی۔

تھی تو وہاں بھی چاکلیٹ لیکن اور انداز میں۔ ریسیپشنٹ نے پہلے تو مجھے میوزیم کا بروشر دیا، پھر مجھ سے ٹکٹ کے نام پر15 یورو جھاڑے اور ایک آلہ تھما دیا کہ اندر جاﺅ گے تو جہاں جہاں کراس کا نشان نظر آئے، وہاں اس آلے کو آگے کردینا، تفصیلات سپیکر کے ذریعے سن لینا۔

اب کرتا بھی کیا، جو حکم سرکار کا، من و عن عمل شروع کردیا۔ کمرے بدلتے رہے، منظر بدلتے رہے تو احساس ہوا کہ یہاں آکر کوئی غلطی نہیں کی، کوکوبین کب دریافت ہوا، کہاں پایا جاتا ہے، کب اس کو پہلی بار چاکلیٹ کی شکل دی گئی، یہ جو ہم اور ہمارے بچے بڑے شوق سے کھاتے ہیں، یہ چاکلیٹ بنتی کیسے ہیں اور کن کن مراحل سے گزرتی ہے۔

اندر ایک شخص کو تقریباً سارا پراسس کرتے بھی دیکھا، اس نے بھی اپنے ہاتھ کی بنی چاکلیٹ کا ایک بڑا سا ٹکڑا خود میرے منہ میں ڈالا۔ ایک میوزیم میں چاکلیٹ سے عمارتوں کے ماڈلز بھی بنا کر رکھے گئے ہیں۔

تصویر چاکلیٹ ویلیج سے باہر نکالا تو بھوک جوبن پر تھی، کچھ حلال ڈھونڈنے میں کافی دیر لگ گئی کیونکہ ریسٹورنٹس اور ہوٹل تو جابجا تھے، بھرے ہوئے تھے، جو بیچ رہے تھے، سب نے نام کے ساتھ قیمتیں بھی لکھی تھیں پر زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے خسارے میں رہا، چہل قدم کرتا آگے بڑھتا رہا اور برسلز کی خوبصورتی پر خودکلامی بھی کرتا رہا۔

 whatsapp-image-2016-10-13-at-3-23-07-pm1

سینٹرم کا علاقہ کافی گنجان اور کاروباری مرکز ہے، وہاں پہنچا تو پیاس سے برا حال تھا، ایک بار ٹائپ دکان میں گھسا تو پانی کی بوتل پوچھی تو 2.10 یورو کی، بیئر2 یورو اور کوئی بھی سافٹ ڈرنک 1.5 یورو کا تھا، سو جو سستا ملا، وہی لیا اور بار کے باہر فٹ پاتھ پر لگی کرسیوں پر براجمان ہوگیا،

پیٹ کی پیاس بھی بجھتی رہی اور آنکھوں کی بھی۔ اسی دوران ایک واجبی سے چہرے والی خاتون نے آکر ہائے کہا اور بیلجین زبان میں جانے کیا کہا۔ میں نے کہا انگلش میں جواب دیا تو ٹوٹی پھوٹی انگلش میں حال احوال بتایا۔ میں نے اسے آفر کی کہ جو چاہے پینا چاہے پی لے۔ اس نے بھی مجھے دیکھتے ہوئے کولا منگوائی اور میرے ہی پہلو سے لگ کر بیٹھ گئی۔ کچھ ادھر ادھر کی باتیں، جس کی اسے سمجھ آئی، جواب دیا، جو نہ آئی اس کو ہنس کا ٹال گئی۔ باتوں باتوں میں، میں نے پوچھا کہ کیا کرتی ہو تو بولی پراسیچیوٹ ہوں، چلو گے؟

سفرنامے کے پہلے حصے

برسلز:سیکیورٹی کراچی، علاقہ اسلام آباد سا
سفر یورپ: دیسی اسٹائل

کتوں کیلئے فٹبال گراؤنڈ

ایمسٹرڈیم سے برسلز

 

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: