بلوچستان سے 6 سال کے دوران ایک ہزار لاشیں ملی ہیں جن کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔
51 فیصد لاشیں بلوچ قوم پرستوں جبکہ 22 فیصد پشتونوں کی ہیں۔
دیگر لاشیں پنجابیوں، افغان مہاجرین اور غیر مسلموں کی ہیں۔
2010ء سے اب تک بلوچستان کے مختلف اضلاع سے 940 لاشیں ملی ہیں جبکہ کوئٹہ سے ملنے والی لاشوں کی تعداد سب سے زیادہ 346 ہے۔
فرقہ وارانہ واقعات میں 658 افراد نے جاں بحق ہوئے جبکہ ٹارگٹ کلنگ اور دیگر جھگڑوں میں ایک ہزار 837 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
اس عرصے کے دوران دہشت گردی اور فرقہ وارانہ واقعات میں 3 ہزار 470 افراد زخمی ہوئے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں امن و امان کی صورتحال تشویشناک ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں ایک سو بارہ افراد لاپتہ ہیں۔
سیکیورٹی فورسز نے نئے تشکیل پانے والے انٹیلی جنس فیوژن سیل کی مدد سے 498 لاشیں تلاش کی ہیں۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کے بعد قلات دوسرا بڑا ضلع ہے جہاں سے 268 لاشیں ملی ہیں۔
سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد بلوچستان میں انٹیلی جنس اطلاعات پر مبنی 2 ہزار 654 آپریشنز کئے جن میں 335 جرائم پیشہ افراد مارے گئے اور 73 زخمی ہوئے۔
ڈیڑھ سال کے دوران 13 ہزار 362 جرائم پیشہ افراد گرفتار کئے گئے۔