قبروں کی مٹی سے جنم لیتی بغاوت

مرتضیٰ شبلی ۔ رپورٹ دنیا ٹوڈے

(مرتضیٰ شبلی  کشمیر افیئرز کے ایڈیٹر اور کشمیری مسلمانوں کے نظریاتی نمائندے تصور کیے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کی تحریر کشمیر کے معاملے پر مستند تصور کی جاتی ہے۔ لاہور میں ایک تقریب کے دوران اپنا مؤقف پیش کیا۔ ان کا یہ مؤقف من و عن اس رپورٹ میں دیا گیا ہے۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشمیریوں کو پاکستان سے عشق ہے اور وہ خود کو پاکستانی تصور کرتے ہیں۔ لیکن یہ یکطرفہ محبت ہے جس میں کشمیریوں کا پچاس فیصد پورا عشق ہے ادھر سے کچھ نہیں۔

کشمیر کے مسئلے کا حل بات چیت سے ممکن نہیں اور ایسا سوچیں بھی مت کہ مذاکرات سے کبھی کچھ ہونے والا ہے۔ کشمیری پہلے ہی 30 سال سے جنگ کا سامنا کررہے ہیں اور آزادی حاصل کرنے کے لیے لڑائی کے علاوہ کوئی دوسرا حل نظر بھی نہیں آتا۔

جنگ میں خطرہ ہے کہ بہت سے لوگوں کی جانیں جاسکتی ہیں۔ کشمیریوں کی جانوں کے ساتھ پاکستان اور بھارت میں لاکھوں بے گناہ شہریوں کی جانوں کو بھی خطرہ ہے۔

کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد سے جاری تحریک آزادی میں حریت کا کوئی کردار ہے نہ پاکستان کا۔ یہ کشمیر کے اصل باشندوں کی بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد شروع ہونے والی تحریک کو پہلے تین ہفتے تک دنیا نے اہمیت ہی نہیں دی۔

Burhan Wani

پاکستان کشمیر کی حمایت نہیں کررہا بلکہ اس میں نہ چاہتے ہوئے پھنس چکا ہے۔ پاکستان کشمیر پر اپنے نظریاتی پوزیشن سے بھی پیچھے ہٹ چکا ہے۔ کشمیر پر نظریاتی موقف سرنڈر کرنے کے باوجود پاکستان کے بھارت سے تعلقات میں بہتری آئی نہ انڈیا پاکستان میں مداخلت سے باز آیا۔ بھارت میں کشمیر کے حوالے سے ایک بیانیہ یہ بھی ہے کہ کشمیری مسئلہ ہیں کشمیر نہیں تاہم یہ بھی ناکام ہوچکا ہے۔

کشمیر میں حریت پسند کبھی بھی بھارت کے لیے حقیقی معنوں میں خطرہ نہیں رہے تاہم دنیا کے سامنے بھارت انہیں ہوا بنا کر پیش کرتا آیا ہے۔ اس داستان طرازی کے پیچھے اصل مقصد یہ ہے کہ کشمیر میں فوج کو رکھا جائے۔ کشمیر دنیا بھر میں سب سے زیادہ فوج زدہ علاقہ ہے۔ پہلے چھ یا سات کشمیریوں کے لیے ایک فوجی تھا۔ اب ہر پانچ کشمیریوں کے لیے ایک فوجی ہے۔

ایک بھارتی عہدیدار کے مطابق حکومت کبھی کشمیر سے فوج نہیں نکالے گی۔ فوج یہاں پر حریت پسندوں سے لڑنے کے لیے نہیں بلکہ عام عوام کے لیے رکھی گئی ہے۔ بھارت کشمیر پر کبھی سرنڈر بھی نہیں کرنے والا ہے۔

کشمیریوں کے خلاف استعمال کی جانے والی پیلٹ گن نہیں شاٹ گن ہے۔ وہ بندوق جو جنگلی جانوروں کو مارنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ بھارت کشمیر میں اسی طرز  پر مظالم کررہا ہے جیسا اسرائیل فلسطین میں کررہا ہے۔ کشمیریوں کے جسم کے اوپری حصوں کو فائرنگ کرکے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان کو جان بوجھ کر اندھا کیا جارہا ہے۔ اس کا ایک مقصد لوگوں میں خوف پیدا کرنا ہے۔ دوسرا انہیں بدصورت بنانا پے۔

Kashmir Boy Injured - Copy

برہان وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیریوں کی جدوجہد چل رہی تھی کہ اڑی حملہ ہوجاتا ہے۔ اس حملے سے بھارت کشمیریوں کی تحریک آزادی کا سارا بیانیہ بدل دیتا ہے۔ بھارت اس کو سرحد پار دہشت گردی کا رنگ دیتا ہے۔ دنیا کی توجہ کشمیر سے ہٹا کر پاکستان اور بھارت کے خراب ہوتے تعلقات پر مرکوز کردی جاتی ہے۔

کشمیریوں کی اکثریت کا ماننا ہے کہ اڑی حملہ بھارت کی سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دیا جائے۔ ماضی میں بھی بھارت اس طرح کرچکا ہے۔ مارچ 2000 میں امریکی صدر بل کلنٹن کی آمد سے پہلے کشمیر میں سکھوں کا قتل ہوتا ہے تاہم چار پانچ سال بعد تحقیقات میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس قتل کے پیچھے بھارتی ایجنسیوں کا ہاتھ تھا۔

اڑی حملے کے بعد بھارت نے مقبوضہ وادی میں پُرتشدد کارروائیوں میں اضافہ کیا۔ سرحد پر بھی جارحیت بڑھائی۔ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ایل او سی پر فائرنگ کی جارہی ہے۔ پہلا مقصد کشمیریوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔ دوسرا پاکستان کو ڈرانا اور اس کی پوزیشن کمزور کرنا۔ تیسرا مقصد اس پوری تحریک اور منظر نامے کا بیانیہ بدلنا ہے اور چوتھا مقصد اس تنازع پر پوری دنیا کا نکتہ نظر تبدیل کرنا ہے۔

“آئی آئی لشکر آئی۔ انڈیا تیری موت آئی”

کشمیر میں لشکر طیبہ کو بہت حمایت حاصل ہے۔ کشمیریوں کی بڑی تعداد لشکر طیبہ سے محبت کرتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لشکر طیبہ نے حقیقی معنوں میں انڈیا کو چیلنج کیا۔

1991 میں کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں کی تعداد 38 ہزار تھی۔ ان میں کچھ دہشت گرد بھی تھے تاہم اکثریت آزادی کے لیے حقیقی جدوجہد کرنے والوں کی تھی جن کی زیادہ تر تعداد پاکستان کی حامی تھی۔ ان حریت پسندوں کی اکثریت نے ہتھیار ڈال دئیے۔ بہت سے مارے گئے اور گرفتار ہوگئے۔  2010 میں تحریک آزادی کے لیے لڑنے والوں کی تعداد صرف 60 رہ گئی تھی۔

لشکر طیبہ کے بارے میں پاکستان میں حالیہ دنوں میں بیانیے میں تبدیلی آئی ہے۔ عالمی دباؤ پر اس جماعت پر پابندی بھی لگائی گئی ہے۔ ہر ریاست اپنے مفادات کے حصول کے لیے نان سٹیٹ ایکٹر رکھتی ہے تاہم یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کتنا دباؤ برداشت کرسکتے ہیں۔

Srinagar Kashmir curfew - Copy

بھارت اپنی فوج کے علاوہ کشمیر میں نان سٹیٹ ایکٹرز بھی رکھتا ہے۔ پہلے نمبر پر ولیج ڈیفنس کمیٹیاں ہیں۔ دوسرے راشٹریہ سیوک سماج کے انتہاپسند ہیں۔ تیسرے اخوان کے نام سے تنظیم بنارکھی ہے جو لوگوں کی قتل و غارت گری میں مصروف ہیں۔

کوئی بھی بڑی فوج اپنے مقابلے میں چھوٹی فوج کو دہشت گرد قرار دیتی ہے۔ بھارت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیر میں تحریک آزادی کے بیانیے کو دہشت گردی کا رنگ دے رہا ہے۔

سابق امریکی صدر جارج بش اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے لیکن کوئی نہیں بولتا۔ سعودی عرب یمن میں لوگوں کو مار رہا ہے لیکن کوئی نہیں بولتا۔

کشمیریوں کی آبادی 85 لاکھ ہے اور برہان وانی کے جنازے میں 12 لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ وادی میں کرفیو کے باوجود اتنے لوگ شریک ہوئے۔ اگر کرفیو نہ ہوتا تو شاید یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی۔ لوگ اب پہلے سے زیادہ نڈر ہیں۔ انہیں بھارتی فوج کی گولیوں کا یا شیلنگ کا خوف نہیں۔

بھارت کی 10 لاکھ فوج کے مقابلے میں 220 یا 230 حریت پسند کچھ معنی نہیں رکھتے۔ وادی کی چاروں طرف سے ناکہ بندی ہے۔ ایسے میں حریت پسندوں کو باہر سے مالی یا فوجی امداد ملنا ممکن ہی نہیں۔ حریت پسند بھارتی فوج پر حملے کرکے ہی ان سے ہتھیار چھینتے ہیں۔ ان کی وردیاں بھی چھینتے ہیں۔

مقامی لوگ ہی اس تحریک کی مالی امداد کررہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان کی جانب سے امداد کی گئی تاہم اس سے فائدے کے بجائے نقصان ہوا اور کشمیری خود پر انحصار کرنے کے بجائے پاکستان پر تکیہ کرنے لگے۔

پاکستان میں تصور ہے کہ پاکستانی فوج مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتی۔ حقیقت میں بھارتی فوج کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں چاہتی۔ پچھلے دس سالوں میں کشمیر کے حوالے سے بھارتی فوج کا سیاسی کردار بڑھا ہے۔

Burhan Still Alive

کشمیر میں جانے والے ہر بھارتی فوجی کو دوسروں کی نسبت زیادہ تنخواہ اور مراعات ملتی ہیں۔ وہاں رہ کر یہ جتنے بھی مظالم ڈھائیں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ جب یہ کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہیں تو چوروں سے بدتر پیش آتے ہیں۔ بھارتی فوج کشمیریوں کے گھروں سے کمبل سے لے کر چپل تک اٹھاکر لے جاتی ہے۔ جب چھٹیوں پر کشمیر سے واپس جاتے ہیں تو ہر فوجی کے ساتھ بے شمار سامان بندھا ہوتا ہے۔

امریکا بھی مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتا کیونکہ اس خطے میں اپنا کردار اور بالادستی قائم رکھنے کے لیے اسے ایسا مسئلہ درکار ہے جس کی بنا پر وہ پاکستان اور بھارت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکے۔

چین اس تنازع میں ڈی فیکٹو پارٹنر ہے۔ موجودہ صورتحال کا پاک چین اقتصادی راہداری سے کوئی تعلق نہیں تاہم مستقبل میں اس کا کوئی تعلق بن سکتا ہے۔ چین اس مسئلے کے حل میں فیصلہ کن کردار بھی ادا کرسکتا ہے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: