بھارتی فوج سیاسی قیادت سے ناخوش

رابن ڈیوڈ
ٹائمز آف انڈیا

گزشتہ ماہ پاکستانی سرحد کے اندر کارروائی سے یہ تاثر گیا کہ بھارتی فوج اور سویلین حکومت کے تعلقات میں اچانک بہتری پیدا ہوئی ہے۔
فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ جنرلز سے مگر بات کریں تو احساس ہوتا ہے کہ سب اچھا نہیں ہے۔
اگر پاکستان کے ساتھ دبنگ انداز میں نمٹنا ہے تو حکومت اور فوج میں بہت سے اہم اور حساس کا حل نکالنا ہو گا۔
فوجی قیادت نے سیاستدانوں کی طرف سے سرجیکل اسٹرائیکس کا کریڈٹ لینے کی کوششوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔
پاکستانی اداکار کو فلم میں شامل کرنے کی تلافی کے طور پر پروڈیوسر سے زبردستی 5 کروڑ روپے فوجی فنڈ میں جمع کرانے کے معاملے پر بھی فوج خوش نہیں ہے۔
بھارتی فوج میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حکومت ووٹ لینے کے لئے تو اسے استعمال کر رہی ہے لیکن اس کے مسائل حل نہیں کئے جا رہے۔
شاید ہر کوئی یہ بھول گیا کہ اڑی حملے سے قبل بھارتی فوج کا اعصابی مرکز، ویسٹرن کمانڈ 50 دن تک بغیر کمانڈر کے کام کرتا رہا۔
لیفٹننٹ جنرل کے جے سنگھ 31 جولائی کو ریٹائرڈ ہوئے اور لیفٹننٹ جنرل سرندر سنگھ نے 17 ستمبر کو چارج سنبھالا۔ ان کے چارج سنبھالنے کے 11 روز بعد اڑی واقعہ ہو گیا۔
اگرچہ اڑی کا علاقہ ناردرن کمانڈ کے تحت آتا ہے لیکن پاکستانی سرحد تک ساتھ بیشتر علاقے کی حفاظت کی ذمہ داری ویسٹرن کمانڈ کے پاس ہے۔
ریٹائرڈ جنرلز کا کہنا ہے کہ ویسٹرن کمانڈ میں نئے کمانڈر کی تقرری میں اتنا وقفہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ہمیشہ نئے کمانڈر کا نام پہلے سے موجود کمانڈر کی ریٹائرمنٹ سے ایک مہینہ پہلے سامنے آ جاتا ہے۔
قبل اس کے کہ ہم سرجیکل اسٹرائیک کے گن گائیں، یہ فوج کے اندر پائے جانے والے غصے کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ فوج کی طرف سے 7ویں پے کمیشن پر مایوسی کا اظہار پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
فوجیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں او آر او پی (ون رینک ون کمیشن) کے تحت بھی مکمل مراعات نہیں دی جا رہیں۔
سینئر فوجی افسروں میں اب یہ بات عام ہے کہ جب شام کو وہ کہیں اکٹھے ہو کر اسکاچ کی چسکیاں لیتے ہیں تو فوج میں میرٹ کو نظر انداز کئے جانے کی باتیں کرتے ہیں۔
وہ یہ باتیں کرتے ہیں کہ کیسے کئی اہم دفاعی پوسٹوں پر تعیناتی کے باوجود کابینہ کی اپائٹمنٹس کمیٹی ان کی قابلیت کو نظر انداز کر دیتی ہے۔
کارگل کی جنگ میں بھارتی فوج کے کمانڈر جنرل وی پی ملک فوج میں اہم اور بڑے فیصلوں کا اختیار چیف آف ڈیفنس اسٹاف کو سونپنے پر زور دیتے ہیں۔
جنرل وی پی ملک اور دیگر ریٹائرڈ افسران یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ فوج کی اعلیٰ قیادت اور کابینہ کی اپائنٹمنٹس کمیٹی کے عہدیداروں میں رابطے ہونے چاہئیں۔ انہیں یہ شکوہ ہے کہ یہ رابطے اکثر تب کئے جاتے ہیں جب کوئی بحرانی کیفیت ہو۔
فوج میں یہ خواہش بھی پائی جاتی ہے کہ ملک کے دفاعی معاملات میں فیصلے کا اختیار انہیں دیا جائے، فوج یہ بھی چاہتی ہے کہ انہیں براہ راست سیاسی قیادت کے ماتحت لایا جائے، نہ کہ بیورو کریسی ان پر حکم چلاتی رہے۔
تقسیم ہند کے بعد بھارتی حکومت نے فوج کو سویلین قیادت کے ماتحت لانے کے لئے اہم کردار ادا کئے، شاید اسی وجہ سے بھارت ان فوجی بغاوتوں سے محفوظ رہا جن کا سامنا پاکستان کو قیام میں آنے کے فوراً بعد ہی کرنا پڑا۔
آزادی حاصل کئے ہوئے اب بہت عرصہ گزر چکا ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے فوجی افسروں پر تھوڑا زیادہ اعتماد کریں۔
جن جرنیلوں نے ملک کے لئے جنگیں لڑی ہیں وہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ سیاستدان سرجیکل اسٹرائیک پر اپنا سینہ تان کر بہادری کا اظہار کرنے کی بجائے اکٹھے ہوں اور فوج کے مسائل پر توجہ دیں۔
فوج کی یہ خواہش بھی ہے کہ ان کی تنخواہوں اور پنشن کے معاملات حل کئے جائیں، ان کی اور ان کی فیملی کی بہبود کے لئے سیاسی قیادت سنجیدگی اختیار کرے۔
فوج کی طرف سے یہ مطالبات ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب بھارت کو پاکستان اور چین کی سرحدوں پر فوج کی سخت ضرورت ہے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: