خوش وسیں او دیس اساڈیا !

ظہیر وٹو
21 ستمبر 2016 کو ’تماہی سنگری‘ لاہور کی جانب سے 1857 کی جنگ آزادی کے سورماؤں کی یاد میں ’خوش وسیں او دیس اساڈیا‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ نظامت کے فرائض معروف شاعر اور ریڈیو اینکر افضل ساحر نے ادا کیے۔
تقریب میں پنجابی زبان و ادب کے نامور اساتذہ ،دانشور اور طلبا نے شرکت کی۔ تقریب کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر سعید بُھٹا،شعبہ پنجابی یونیورسٹی آف پنجاب لاہور نےکی ۔ مہمان خصوصی  ایم این اے ندیم عباس ربیرہ اور میاں سلطان علی رانجھاتھے۔

seminar-pic

تقریب سے کرنل نادر علی ،پروین ملک ،سیکریٹری پاکستان پنجابی ادبی بورڈ، محمد خاں رانجھا، ڈاکٹر اظہر محمود،ممتاز بلوچ،رائے محمدخان ناصر، غلام سرور کاٹھیا، ڈاکٹر صغریٰ صدف، مشتاق صوفی ، احمد رضا پنجابی اور افتخار وڑائچ کالروی نے خطاب کیا۔

تقریب کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ معروف پنجابی داستاں گو ’’میاں خوشی ‘‘ نے جنگ آزادی سے متعلق دلچسپ داستان بیان کی ۔ میاں خوشی 1857 کی جنگ آزادی کے مجاہد شاعر میاں پھوگی کے خاندان سے ہیں۔

ڈاکٹر سعید بُھٹا کی مزاحمتی تاریخ کے موضوع پر اشاعت شدہ کتاب ’نابر کہانی‘ میں مذکورہ داستان  گو کی ’ احمد خان کھرل‘ داستان ہی شامل ہے۔ تقریب میں ر مضان کیمبوکا نے جنگ آزادی کے ڈھولے سُنا کر سماں باندھ دیا۔

رمضان کیمبوکا پنجاب کے مشہور لوک شاعر نوری کیمبوکا کا پڑپوتا ہے۔بلھے شاہ کے بعد نوری کیمبوکا پنجاب میں نابری کی ایک طاقتور آواز تھی جس کے ڈھولے پنجاب کی سماجی، سیاسی اور ثقافتی تاریخ کا ایک شاندار باب ہیں ۔

1857 کی جنگ آزادی کے حوالے سے قدیم ترین تحریر فقط انگریز سامراج کا نقطۂ نظر تھا، جس میں انہوں نے اس جنگ کو بغاوت کا نام دیا جبکہ برصغیر کے لیے یہ جنگ غیرت و حمیت کی جنگ تھی۔

یہی بنیادی فرق تاریخ کے اوراق پر موجود رہا لیکن مقامی آوازیں طاقتور حکومت کے سامنے دبی رہیں۔ بدقسمتی سے 1947 کے بعد بھی جنگ آزادی کے مشاہیر گوشہء گمنامی میں رہے یا عوامی سطح پر انگریزی نقطۂ نظر کے مطابق ڈاکو اور چور ہی سمجھے جاتے رہے۔اس کی بنیادی وجہ نئی نسلوں کے لئے معلوماتی کتب کی عدم دستیابی تھی۔
تاریخ دو طریقوں سے بیان ہوتی ہے ، ایک وہ جو حکومت وقت کی مرضی سے کتابوں اور رسالوں کی شکل میں مرتب کی جاتی ہے اور دوسری وہ مظلوم آواز جو سینہ در سینہ کہانیوں اور روایتوں کی شکل میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔

اول الذکر گہرے اثرات رکھتی ہے اور عوام الناس عموماً اسی کو درست اور راسخ تسلیم کرتے ہیں ۔ثانی الذکر اگرچہ بھرپور سچ ہوتی ہے لیکن عوام الناس کو اس سے روشناس کرنا کار محال ہوتا ہے۔
اس سیمینار میں1857 کی جنگ آزادی میں پنجاب کے کردار پر بات کی گئی، جس کا بنیادی مآخذ لوک ادب، زبانی روایت اور غیر مطبوعہ تاریخ تھا۔ شرکاء نے تحقیق کی روشنی میں نگارشات پیش کیں کہ پنجاب کے دیہات نے 1857 کی جنگ آزادی میں جرات و بہادری کی لازوال مثالیں قائم کیں اور اس کے نتیجے میں جان و مال کی قربانیاں بھی دیں۔

انگریزوں کے دلی پر قبضے کے بعد بھی تقریباً ڈیڑھ سال تک پنجاب میں جنگ آزادی کا شعلہ بھڑکتا رہا۔ سرسہ سے کشمیر اور میوات سے سندھ تک لوگ آزادی کے لئے میدان میں اترے ۔

بڑے سورماؤں میں رائے احمد خان کھرل، باہلک وٹو، مراد اور بہاول فتیانہ، نادر شاہ قریشی،سوجا بھدرو ،سارنگ بیگے کا، موکھا ویہنیوال، لقمان جوئیہ، محمد خان کاٹھیا،ولی داد مُردانہ، بلند ترہانہ، شہباز خان ڈُھنڈ، خوشحال ماچھی کے نام سر فرست ہیں۔
ڈاکٹر سعید بُھٹا نے تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے اصل تاریخی حقائق کو سمجھنے اور ان کی روشنی میں نئی نسلوں کو پروان چڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اصل تاریخ، ثقافت، مادری زبان، اور اخلاقی اقدار سے رابطہ ہی اقوام کی تربیت کا بنیادی خاصہ ہے، اس کے بغیر بظاہر تو کوئی نقصان نظر نہیں آتالیکن در حقیقت معاشرے کھوکھلے اور بے بنیاد رہتے ہیں۔مادری زبان و ادب اقوام کے لئے بنیادی تربیت گاہ ہیں۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: