پاکستانی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ، قیمتیں گرنے لگیں

شارام حق (ایکسپریس ٹربیون)

پاکستان کی ٹاپ ہاوسنگ سوسائٹیوں میں قیمتیں تیزی سے گر رہی  ہیں۔ پہلے کبھی بھی ایسی صورت حال دیکھنے میں نہیں آئی جس کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار انتہائی مشکلات کا شکار ہو رہا ہے۔

حکومت نے 2سال سے پہلے بیچی گئی زمینوں پر  کیپیٹل گین ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ اس کے لئے حکومت نے انکم ٹیکس قانون میں آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کی۔ بے شک اس کے مقاصد نیک تھے ۔بنیادی مقصد صرف  پراپرٹی کو ٹیکس نیٹ میں لانا تھا کیونکہ یہ  سیکٹر ایک عرصے سے ٹیکس سے آزاد تھا۔

اس آرڈیننس کی مدد سے ایک  مقصد تو یہ حاصل ہو گیا کہ پراپرٹی کی درست قیمت کا تعین کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ لوگ اب پراپرٹی کو اوور ویلیو کر کے نہیں بیچ رہے۔اب تک دو ماہ میں اس قانون کے خلاف متعدد مظاہرے ہو چکے ہیں کیونکہ  رئیل اسٹیٹ والوں کو اب حدت پہنچانا شروع ہوئی ہے۔

پراپرٹی کی قیمتیں بجٹ تجاویز کے بعد گرنا شروع ہوئیں۔ تاہم اب سرمایہ کاروں کو لگ رہا ہے کہ وہ یہ عمل نہیں روک پائیں گے کیونکہ حکومت اس پر ڈٹ گئی ہے۔ ایسے میں مارکیٹ انتہائی تذبذب کا شکار ہے۔

ماہرین کا  کہنا ہے کہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار ٹیکس ادا کرنے کو تیار ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ پیسا کہاں سے آیا۔ایف بی آر تمام افرادسے پیسے کا ذریعہ پوچھ رہی ہے۔

پاک پراپرٹی کے سی ای او شیخ غفور کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی پیسے کا ذریعہ بتانے کو تیار نہیں۔ یہ عمل پراپرٹی کے کام میں مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔ کوئی بھی ٹیکس نیٹ کا حصہ نہیں بننا چاہتا کیونکہ انہیں پتا ہے کہ ماضی میں اگر شفاف پیسے سے بھی  کام شروع کیا گیا تو ایف بی آر نے اس کو بھی تنگ کیا۔

جولائی کے بعد سے تین اہم ترین شہروں میں زمینوں کی خریدوفروخت پر بڑا گہرا اثر پڑا ہے۔ صرف لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے ڈی  ایچ اے میں خرید و فروخت میں 70فیصد کمی آئی ہے۔ ڈی ایچ اے  میں بیشتر بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن اب انہیں بھی خدشات لاحق ہو رہے ہیں۔اس وقت غیر ملکی پاکستانیوں کی سرمایہ کاری پراپرٹی میں دس سال کی کم ترین سطح پر ہے۔

ڈیفنس اور کلفٹن پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق ’’مارکیٹ بحران میں ہے اور صرف چند ہی لوگ کاروبار کر رہے ہیں۔ اس کی بہتری کا ابھی کوئی امکان نہیں۔ ہم کسی بھی صورت ایف بی آر کی مداخلت قبول نہیں کریں گے۔ لاہور  کے ساتھیوں کی طرح ہمارا مطالبہ بھی یہی ہے کہ ٹیکس صوبائی سطح پر لیا جائے۔

پاکستان کے تمام لوگ جانتے ہیں کہ رئیل اسٹیٹ میں پاکستان کا سارا کالا دھن سفید ہوتا ہے۔ یہاں پر لوگوں کو ٹیکس کی چھوٹ حاصل ہے۔ تاہم اب سب بدل رہا ہے۔ حکومت نے دو سال سے کم مدت میں پراپرٹی کی فروخت پر نہ صرف ٹیکس بڑھا دیا ہے بلکہ یہ ٹیکس دینے اور نہ دینے والوں پر بھی سختی کردی ہے۔

پراپرٹی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ نئے ٹیکس قوانین نے چھوٹے اور متوسط پراپرٹی ڈیلرز کا کام بالکل بند کرا دیا ہے۔ ایسے میں ایف بی آر کو شاید ایسی حکمت عملی بنانی چاہیے جس سے بتدریج اس سیکٹر پر ٹیکس لاگو کیا جائے۔

ایکسپریس ٹربیون پر پڑھیں

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: