ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ ترکی کے خلاف برسرپیکار کرد باغیوں کو ہتھیار دینا بند کرے۔ ایک بیان میں ترک صدر نے کہا کہ امریکا نے حال ہی میں کردوں کو جنگی ہتھیاروں سے بھرے ہوئے دو طیارے پہنچائے ہیں، یہ حرکت خطے کے امن کے لئے تباہ کن ہے۔
ترک شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف سرگرم باغیوں کا اتحادی ہے، اس اتحاد میں امریکا اور سعودی عرب بھی شامل ہیں جو بشار الاسد کی ایران نواز حکومت گرانا چاہتے ہیں تاہم ترکی اور امریکا میں کرد باغیوں کے باعث چپقلش بھی چل رہی ہے۔
شام اور ترکی کی سرحد پر کرد باغی جہاں ایک طرف داعش کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں تو دوسری طرف وہ ترکی کی سرحد پر بھی حملے کرتے رہتے ہیں۔ امریکا داعش کو ختم کرنے کے نام پر کرد باغیوں کی حمایت بھی کرتا ہے۔
طیب اردگان نے اپنے بیان میں امریکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگرامریکا سمجھتا ہے کہ ترک مخالف تنظیموں وائی پی جی اور پی ؤائی ڈی کی مدد سے داعش کو ختم کیا جا سکتا ہے تو یہ غلط ہے، کیونکہ یہ دونوں تنظیمیں خود بھی دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو ترکی میں حملوں اور دہشت گردی میں ملوث ہیں۔
شام میں گذشتہ 5 سال سے جاری خانہ جنگی میں اب تک 3 لاکھ سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا جاچکا ہے جبکہ لاکھوں افراد بے گھر اور قریبی ممالک میں نقل مکانی کرنے اور کیمپوں میں بے سرو سامانی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ترکی کے امریکا مخالف حالیہ بیانات کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید کشیدگی کا خدشہ ہے۔