’’تجسیم‘‘۔۔۔ شاعری کی روشن مثال

زاہد حسن

سہیل احمد خاں نے اپنے ایک مضمون بعنوان ’’فراغتے و کتابے و گوشہ چمنے‘‘ کی شروعات ان لفظوں میں کی ہے:
’’فراغتوں کو جدید زندگی کا دھارا بہا کر لے گیا۔ چمن سکڑ گئے یا گھر سے دور ہو گئے۔ جو ہیں وہاں آئس کریم اور پوپ کارن کھاتے ہجوم کے درمیان کتاب پڑھنے کا انہماک کہاں ملے گا اور خود کتاب، کہا جا رہا ہے کہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور سی ڈی کے زمانے میں کتابوں کا بازار بھی مندا پڑتا جا رہا ہے۔‘‘
سہیل صاحب کی بات اپنی جگہ درست دکھائی دیتی ہے کہ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ بات آئس کریم اور پوپ کارن کھاتے ہجوم سے بہت آگے بڑھ چکی ہے، کہ سامنے محض ہجوم دکھائی دے رہا ہے جو کسی الوہی طاقت کے زیرِ اثر اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر لڑھکتا چلا جا رہا ہے۔
تاہم اس گئی گزری صورتِ حال میں بھی کچھ احباب ایسے موجود ہیں جو اس ’’فراغتے و کتابے و گوشتہ چمنے‘‘ کی خواہش اور اس خواہش کی لاج رکھے ہوئے ہیں۔ معین نظامی، ان احباب میں نمایاں ہیں۔ جنہیں حرف کی آبرو عزیز از جاں ہے، جو زبانوں کا تقدس جانتے ہیں اور جو لفظ کی آبرو کا پاس رکھتے ہیں، انہیں اس کا احترام ہے۔ اُن کی شاعری میں قدیم کا اسرار اپنے جُملہ بھید بھاؤ کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ یوں تو ان کی مطبوعات بتیس کے قریب شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں تراجم، تدوین، تصوّف اور علمی و ادبی حوالے سے کیا گیا کام شامل ہے۔ اس علمی، روحانی اور فکری سفر میں انہوں نے کچھ پڑاؤ شعری سلطنت میں بھی کئے ہیں۔ ’’نیند سے بوجھل آنکھیں، تجسیم، استخارہ، طلسمات اور متروک‘‘ ان پڑاؤ کا روشن اظہار ہیں۔ اور بہت حد تک اس اظہار کی ترجمانی کر رہے ہیں جو سہیل احمد خاں نے ان کی شاعری اور خاص طور پر ’’تجسیم‘‘ کی شاعری کے حوالے سے کیا ہے۔ سہیل احمد خاں کہتے ہیں:
’’معین نظامی، اشیا اور انسانی تجربات کے ’’جوہر‘‘ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ زندگی کے دائمی سوالوں سے پیدا ہونے والا اضطراب انہیں اساطیر اور حکایات کے سرچشموں کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ ’’منطق الطیر‘‘ اور ’’طوطی نامہ‘‘ کی فضاؤں میں سفر کرتے ہیں۔ وہ صرف باز گوئی تک نہیں رہتے، شعورِ تہذیب کو شعورِ عصر تک ملانا چاہتے ہیں۔ اُن کی نظموں کی تلمیحات تہذیبی ماضی کی یادوں کو جگاتی ہیں اور شعور کو منوّر کرتی ہیں، جیسے کچھ فاصلوں پر الاؤ کی روشنی اور اُس کے گرد ’’پشمینہ و دستار میں لپٹے ہوئے‘‘ افسانہ گو نظر آ رہے ہوں۔‘‘
’’تجسیم‘‘ کی اوّلین قرأت ہمیں بتاتی ہے کہ وہ شعری تہذیب کی پوری آگہی رکھتے ہیں۔ دوسری قرأت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں روایت کا سلیقہ موجود ہے۔ ایک اور قرأت سے پتہ چلتا ہے کہ لفظوں کے پسِ پردہ کارفرما فکری اور معنوی حقیقتیں اپنا مکمل اظہار کر رہی ہیں۔
’’رنگ استعارے ہیں / تُو نے جو نِکھارے ہیں / پھُول سب اشارے ہیں / تو نے جو سنوارے ہیں / اشک سب ستارے ہیں/ تو نے جو اُتارے ہیں / رنگ، پھول اور آنسو / سب کے سب ہمارے ہیں [رنگ، پھول اور آنسُو ص ۱۴]

ایک عجیب و غریب رنگ و آہنگ، ردھم اور بہاؤ ہے ان کی شاعری میں۔ لگتا ہے لفظوں سے رچنے رسنے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ ہر رمز پہچانتے ہیں۔ اور رمزوں اور ریتوں سے اُسرتی دیوار پر عمارت کھڑی کرنے اور اس میں زندگی کرنے اور سانس لینے کا راز جانتے ہیں۔ نئی آباد سرزمینوں پر بسنے والے نئے شہروں کے خمیر اور اپنے وجود کے خمیر میں شامل دوسراہٹ کا اظہار ان کی نظم ’’اسلام آباد کے لئے‘‘ میں بہت عمدگی کے ساتھ ملتا ہے۔
’’تمہاری بستیوں کی ان زمینوں کا کٹاؤ / میرے بنجر دِل کے گھاؤ کی طرح ہے / اور تمہارے شہر کے اونچے پہاڑوں کے گھنے جنگل میں پھیلی آگ / میرے ذہن میں اُمڈے خیالوں کے الاؤ کی طرح ہے / اور تمہارے باغچوں کے سبزہ و گل میں ہوائے صبح دم کی سرسراہٹ / میری خواب آلود آنکھوں کے دریچوں میں / گئے وقتوں کے خوابوں کے بہاؤ کی طرح ہے / اور تمہارے روز و شب کے موسموں کی خوش گواری / میرے ایک بچھڑے ہوئے اہلِ محبت کی طبیعت کے رچاؤ کی طرح ہے۔‘‘ [ص ۲۰]

ایک ایسی تہذیب اور ایک ایسی معاشرت جو ہنوز نئے خدّوخال حاصل کر رہی ہو اور خدّوخال بھی بے ڈھنگ اور بے ڈھب۔ ایسے میں ایسے اہلِ ذوق اور ایسے صورت گروں کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ جو اس جدید کی مثبت اقدار کو قدیم کی روشن روایات سے ہم آہنگ و منسلک کر دیتے ہیں یوں اس عمل سے جو تہذیب رواج پاتی ہے۔ اس میں عِلم و عمل، اور فکر و نظر کے جو سرچشمے پھوٹتے ہیں وہ اس خطۂ ارض اس انسانی ریاست کو جہان رنگ و بُو میں ایک سنجیدہ صفت انسانی بستی کے طور پر متعارف کرواتے ہیں، جو انسان کے لئے آباد کی گئی ہو اور جس میں حقیقت میں بھی انسان ہی بستے ہوں۔۔۔ ایک ایسی بستی جس کی کہانی معین نظامی بیان کرتے ہیں اس میں ایسے عالمانِ باصفا کا کردار تو کچھ اور بھی اہم نظر آتا ہے۔
’’مسخ مسخ رُوحیں ہیں / پھیکے پھیکے چہرے ہیں / اُلٹی سیدھی نیّت ہے / ٹیڑھی میڑھی باتیں ہیں / رُوکھا رُوکھا سبزہ ہے / سُوکھے سُوکھے پودے ہیں / راکھ راکھ کلیاں ہیں / جھُلسے جھُلسے پتّے ہیں / سُرخ سُرخ مٹّی ہے / کالے کالے رستے ہیں / زرد زرد پتھر ہیں / اُجڑی اُجڑی گلیوں میں / موٹے موٹے کنکر ہیں / سرکشوں کی بستی میں / سخت سخت منظر ہیں [ص۸۹ ۔۹۰]

ایسی ہی بستیوں کے در و دیوار سے لپٹا خوف ہے جو اژدہوں کی مانند سرسراتا، انسانی اذہان میں کُلبلاتا رہتا ہے۔ اور جو احوال مزید کے طور پر لکھنے والوں کے شعر و ادب میں جگہ پاتا ہے۔ سلسلہ در سلسلہ ہماری آئندہ نسلوں تک منتقل ہوتا رہتا ہے۔ تھمتا ہے نہ رُکتا ہے۔ حیاتِ انسانی کی تاریخ اس خوف سے جھوجھتے، اس سے نبرد آزما ہوتے کسی غیر منطقی انجام کی جانب گامزن رہتی ہے۔
’’خوف پر سب زمانوں میں / ساری زبانوں میں جتنی بھی نظمیں کہیں جا چکی ہیں / مرے خوف کی تسمہ پائی کی شرحِ مکرّر ہیں / جو اپنی حد سے تجاوُز کی اک شام مردود کو / ناگہانی بلائے سماوی کے مانند / برقِ تردُّد کی صورت میں میری جبلّت کے خرمن پر ٹوٹا تھا۔‘‘ [خوف در خوف، ص ۲۱]

اور اسی خوف کی آئینہ دار ہیں ’’تجسیم‘‘ میں شامل اُن کی نظمیں، پتھر نہ ہو جانا، گہرے نیلے پردوں والی کھڑکی، منظر، مرغی خانہ، ڈر لگتا ہے، پھول سانسیں لیتے ہیں، اور کابُوس۔ اور ان نظموں پر بات کرتے ہوئے میری مجبوری اور بے بسی یہ ہے کہ جو فنکارانہ اور ہُنر ورانہ طور اطوار معین نظامی نے اخذ کئے اور برتے ہیں، میں اپنے آپ کو اُن کا اہل نہیں پاتا۔ یہ شاعری، یہ نظمیں ایک جہانِ دگر کا پتہ دیتی ہیں۔ جبکہ میرے جیسے نوواردان ابھی اپنے ہی شہر کی گلیوں اور رستوں میں بھٹکتے، ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ اور شام سے پہلے پہلے اپنے گھر پہنچ جانے کی فکر میں غلطاں ہیں۔ ان نظموں میں اگر ایک طرف ہمیں دورِ جدید کے استعارے اور علامتیں نظر آتی ہیں تو دوسری طرف ہمیں آسمانی کُتب میں بیان حکایات کا احسن بیان مِلتا ہے۔ جِسے انہوں نے معاصر صورتِ حال اور اس میں بپا کشاکش سے رَلا مِلا دیا ہے۔ شاعری پر لکھنے والے بعض اہم ناقدین نے بڑی شاعری کی کچھ ایسی نشانیاں بیان کی ہیں۔ جن کی جھلک ہمیں تجسیم کی کئی ایک نظموں میں ملتی ہے۔ دو مثالیں دیکھئے:
’’آفتابی بیٹھکوں میں بات چلتی ہے / تصوّف پر، ادب پر، جنس پر، مہنگائی پر، اشیا کی قلّت پر / مقامی اور آفاقی سیاست پر / خلیجی پانیوں کے پیٹ میں پڑتے مروڑوں پر / معیشت کی رگوں میں دوڑنے والے زرِ سیّال کے نایاب ہو جانے پر / اور اس کے عواقب پر / جہانِ سُرخ کے ایوانِ خاص الخاص کے گرتے ستونوں پر‘‘ [خلیج ص ۱۱۲۔۱۱۳] اور اب دوسری مثال:
اِک بے حد لمبے دودھیا بالوں والی، رات کی رانی جیسی عورت / اب بھی میرے پیچھے بھاگتے بھاگتے، ہنستے ہنستے مجھ کو گود میں لے لیتی ہے / ننھی مُنّی خواب آلُود سماعت میں / اس قطرہ قطرہ رِستی: ’’وڈیاں مہراں والیا سائیاں، رب غریب نوازا‘‘! والی لوری کی / بُوندیں اب بھی میرے کانوں میں ٹپکاتی ہے / دستی پنکھا جھلتے جھلتے / یوسُف اور زلیخا کی منظوم کہانی کی / دھیمی دھیمی خوش بو میں وہ سارا گھر مہکاتی ہے / ناسمجھی کی جلتی تپتی دوپہروں کو اُسی طرح تھپکاتی ہے، بہلاتی ہے۔ [وہ سرسبز غلاف ۷۱۔۷۲] اور اب اس کی نسبتاً زیادہ واضح زیادہ روشن علامت۔
’’محبت کے نشے نے جب میرے چہرے پہ سرخی سفیدی کے بوسے سجائے/ تو اس دور میں / سات کمروں کی ہر خلوتِ خاص میں / میرے سب کُرتے پیچھے سے پھٹنے لگے / اور پھلوں کی جگہ ہاتھ کٹنے لگے‘‘ [عشق کے ساتویں شہر میں۔۱۲۳] چاہے معین نظامی نے یہ کہہ کر کہ ’’یہ بے نظم نظمیں / کسی گیسوئے نامرتّب کے ردّعمل میں / مرتّب ہوئی ہیں۔‘‘ تجسیم کی گُتھی کو محض آسان اور عام فہم بتایا ہے، لیکن کوئی بھی گُتھی جو گیسوئے نامرتّب کے الجھاؤں کے سبب ہی کیوں نہ مرتب ہوئی ہو، آسان اور عام فہم کیوں کر ہو سکتی ہے۔ ’’تجسیم‘‘ اس کلاسیکی شعری روایت کا تسلسل ہے جسے معین نظامی جیسے کچھ گِنے چُنے شعراء نے قائم رکھا ہوا ہے، اور جسے شعر اور ادب کی تابندہ مثال کے طور پر قائم رہنا چاہئے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: