ایم کیوایم الطاف حسین کے بغیر؟

احمد یوسف اور عمار شہبازی(ڈان)

ترجمہ دنیا ٹو ڈے

 

18مارچ کو صرف  متحدہ کے یوم تاسیس سے چند دن پہلے ہی یہ افواہ پھیل گئی کہ لندن میں الطاف حسین انتقال کر گئے ہیں۔ لندن میں تحقیقات اور کراچی آپریشن کی وجہ سے ایم کیو ایم پہلے ہی دباؤ کا شکار تھی۔بہت سے اہم رہنما پاکستان چھوڑ چکے تھے جبکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے لیڈر بھی پریشان پھر رہے تھے۔

ضمنی انتخابات کا دور دورہ تھا کیونکہ صوبائی اور قومی نشستوں سے دو اہم ارکان نے استعفیٰ دیا تاکہ بلدیاتی اداروں کی سربراہی کی جا سکے۔ ان دنوں پارٹی  کے تمام تنظیمی امور خواتین دیکھ رہی تھیں کیونکہ جو بھی مرد پارٹی کے لئے سڑک پر نکلتا یا تو رینجرز کے ہاتھوں پکڑا جاتا ، یا پھر اس پر بغاوت کے الزامات لگنے شروع ہو جاتے۔

اس موقع پر ایم کیو ایم کے غیر متوقع طور پر بہت تھوڑے  لوگ سامنے آئے۔ ایسے میں پارٹی فنڈز بھی بہت بڑا مسئلہ بن گئے کیونکہ شہدا اور اسیروں کے خاندانوں کی مدد کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔ اس دوران الطاف حسین کی مرنے کی خبروں نے کہرام برپا کر دیا۔ اچانک تمام مسائل ایک ایک کر کے سر اٹھانے لگے۔ یونٹ لیول پر باتیں شروع ہو گئیں کہ شاید لندن سے ایک ہم شکل کو بیٹھا کر تقاریر کرائی جا رہی ہیں اور پرانی تقاریر کو ٹیلی کاسٹ کیا جا رہا ہے۔

اس موقع پر 32واں یوم تاسیس انتہائی اہم تھا کیونکہ الطاف کی تقاریر پر پابندی تھی۔ ایسے میں صرف اسی موقع پر وہ تقریب میں شریک ہو کر جان سکتے تھے کہ لندن میں قائد زندہ ہیں یا نہیں؟اس تقریب میں ایم کیو ایم کارکنوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بعد ازاں پارٹی نے کہا کہ یہ ان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔

تقریب میں فاروق ستار خطاب کر رہے تھے کہ اچانک بتیاں بند ہو گئیں، سب کی نظریں اسکرین پر تھیں، اچانک وہاں الطاف حسین کو لندن سیکریٹریٹ میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ فاروق ستار نے کہا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ الطاف حسین وینٹی لیٹر پر ہیں۔

اس موقع پر الطاف حسین  نے بھی اپنی تقریر میں صحت پر عوام کی تشویش دور کی، انہوں نے کہا کہ ’’میرے مرنے کی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں، یہ بات ٹھیک ہے کہ میں مکمل صحت مند نہیں لیکن میں ابھی سانس لے رہا ہوں اور آپ سے بات بھی کر رہا ہوں۔‘‘ الطاف حسین کی سیکریٹریٹ آمد، لوگوں سے ملاقات، پارٹی رہنماؤں کو گلے لگانا، یہ سب افواہوں کو مارنے کے لئے تھا۔ الطاف حسین نے اس موقع پر مذاق بھی کیا اور ناچ کر بھی دکھایا تاکہ اپنے کارکنوں کو حوصلہ دیا جا سکے۔سوالات کے ساتھ آئے کارکنوں کو سب جواب مل گئے۔

اس یوم تاسیس کی تقریب کے بعد ایم کیو ایم آسانی سے ضمنی انتخاب جیت گئی۔ کراچی آپریشن پر ایم کیو ایم کا نظریہ حاوی رہا۔ ایم کیو ایم انتخابات میں بغیر دھاندلی کیے، کسی پر دباؤ ڈالے سب سے آگے نکل گئی۔ کارکنوں کو اندازہ تھا کہ پارٹی مشکل میں ہے اور انہوں نے اس وقت میں بھرپور ساتھ دیا۔

پانچ ما ہ بعد 22اگست کی تقریر کے بعد اچانک الطاف حسین کی ساری طاقت غائب ہو گئی۔ پارٹی کے اپنے رہنماؤں کو ان کی مذمت کرنا پڑی۔ لاپتہ کارکنوں کے معاملے پر الطاف حسین نے ریاست کو دہشت گرد قرار دیا۔ اس کے بعد انہوں نے سب کو حیران کرنے دینے والی حرکت کی، یعنی پاکستان مخالف نعرہ لگایا اور پارٹی ورکروں کو میڈیا ہاؤسز پر حملے کی ترغیب دی۔

اس کے بعد ریاست  نے بھی تیزی سے کارروائی کی اور نائن زیرو کو سیل کر دیا، سرچ آپریشن میں ایم کیو ایم کے اہم رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ سخت عوامی رد عمل کی وجہ پاکستانی قیادت کو الطاف حسین کی پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے  مذمت کرنا پڑی۔ پارٹی دفاتر کو گرانے پر خاموش ہونا پڑا۔ یہاں تک کہ الطاف حسین کے پارٹی آئین میں اختیارات اور  نام جھنڈے سے ہٹانا پڑا۔

ایم کیو ایم کی پارلیمانی قیادت کے لئے اب الطاف حسین ایک بوجھ ہے۔ اب وہ بھائی نہیں، الطاف صاحب ہے۔ ایم کیو ایم کارکنوں کے سامنے الطاف حسین کا بت 4دہائیوں  میں بنایا گیا ہے ،وہ سب خوف یا ہراساں ہو کر پارٹی میں شامل نہیں ہوئے۔ الطاف حسین نے انہیں غربت سے نکالنے کاوعدہ کیا اور کئی مواقع پر اس نے بہت سے وعدے پورے بھی کیے۔

تاہم الطاف حسین پچھلے کئی سالوں سے مسائل کی زد میں ہیں- فوجی اسٹیبلشمنٹ نے مسلسل دباؤ اور میڈیا کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ  لندن سیکریٹریٹ غیر ملکی عناصر کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، خاص طور پر ’’را‘‘ کے۔ اس سے قبل بھی ریاست نے مختلف اوقات میں الطاف حسین کے خلاف مخالفوں کی مدد حاصل کی ہے۔ جیسے 1992سے  1996کے درمیان حقیقی بنائی گئی اور ایک بار پھر اس کی مدد حاصل کی گئی ہے۔

تاہم اس بار لگتا ہے کہ لندن کی قیادت کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کیس کی مدد سے ایم کیو ایم کے نوجوان کارکنوں  میں یہ تاثر قائم کر دیا گیا ہے کہ  ان کا لیڈر درحقیقت مجرم ہے۔ الطاف کی صحت اور غیر ملک موجود ہونے کی وجہ سے ان کا کارکنوں سے تعلق کمزور ہو چکا ہے۔

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی شخصیت اتنی طاقتور  ہے کہ مقامی قیادت کو الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کرنے کے لئے دو بار پریس کانفرنس کرنا پڑی۔ فاروق تار نے تمام قائدین کو جمع کیا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ پارٹی ایک ساتھ ہے۔ تاہم اب تک سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا ایم کیو ایم الطاف حسین کے بغیر چل سکتی ہے یا نہیں؟

اس سوال کا جواب سمجھنے کے لئے ایم کیو ایم کی تنظیم کو سمجھنا ہو گا۔ ایم کیو ایم کے روزمرہ کے معاملات ، جیسے ووٹروں سے ملنا، شکایت کا ازالہ ، لڑائیوں کا حل، ملاقاتیں، وغیرہ کرنے کا کام تنظیم ڈویژن کرتا ہے۔ تاہم یہ پارٹی کی صرف ایک سطح نہیں۔

اس کے علاوہ ایک تحریک کا ڈویژن بھی ہے جس کا کام مہاجروں کی تحریک کو آگے بڑھانا ہے۔ جہاں تنظیمی ڈویژن پاکستان میں رہ کر کام کرتا ہے تو وہیں تحریکی ڈویژن پر ایسی کوئی قدغن نہیں۔ اس کا مقصد صرف مہاجر قوم کی تحریک کو آگے بڑھانا ہے اور اس میں کوئی ریاست یا سرحد آگے نہیں آتی۔

تحریک کو تنظیم پر فوقیت حاصل ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ الطاف حسین کا خطاب بھی ’’قائد تحریک ‘‘ ہے ۔ الطاف حسین بھی تحریک  کے  ڈویژن سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں کے لوگ کبھی منظر عام پر نہیں آتے۔ اس تحریکی ڈویژن میں خفیہ پن سب سے پہلی شرط ہے۔

کیمونسٹ پارٹیوں کی طرح تحریک کا نظریہ تنظیم پر فوقیت رکھتا ہے اور صرف انہی  نظریات کو پارٹی کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے تاکہ لوگ  ان کے پیچھے چلیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پارٹی کا مسلح ونگ بھی اسی تحریکی ڈویژن کے اندر ہے اور اسے لندن سے براہ راست چلایا جاتا ہے۔

گو ایم کیو ایم کو پورے ملک میں پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اب بھی اسٹڈی سرکلز اور تنہائی کی ملاقاتوں میں مہاجر قوم کے مسئلے کو ہی اجاگر کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ آپ کو پارٹی میں نظر نہیں آتے۔ یہ لوگ اپنے قریبی حلقوں میں متحرک ہوتے  ہیں اور ہر وقت اپنے نظریات پھیلانے میں لگے ہوتے ہیں۔یہ نظریات کے محافظ ہیں۔

یہی اس مسئلےکا جواب ہے۔ یہ لوگ 40سالوں سے اسی دن کی تیاری کر رہے تھے کہ اگر ایسا وقت آئے تو یہ نظریاتی لوگ دوبارہ پارٹی کو کھڑا کر سکیں۔ یہ لوگ سائے میں رہ کر سب کچھ کر دیں گے۔ماضی میں یہی لوگ مشکل وقت میں پارٹی کو منظم کرتے ہیں۔ اگر الطاف آج ردعمل کا فیصلہ کریں تو یہ پاکستان میں موجود اتحادی فرنٹ کو تباہ کر دے گا۔

پارٹی ورکر اب بھی غیریقینی کا شکار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ستار پارٹی کو بچانے کے لئے الطاف سے علیحدہ ہو کر آخری بازی کھیل رہے ہیں۔ ایک تحریکی کارکن نے کہا  کہ ’’ستار بھائی نے ہمیں اپنی تقریر میں بتا دیا کہ انہیں الطاف بھائی سے کوئی مسئلہ نہیں، ہاں لندن میں بیٹھے کچھ لوگ مسئلہ پیدا کر رہے ہیں۔‘‘

بے شک  فاروق ستار نے منقطع ہونے کی بات کر کے کارکنو ں کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما ایمن الحق نے کہا کہ ’’الطاف حسین نے مہاجروں کو وہ کچھ دیا جو کوئی نہیں دے سکا، اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

فی الحال کوئی ایسا تاثر نہیں کہ الطاف حسین رد عمل دکھائیں گے اور ہر طرف سے یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ پارٹی اب فاروق ستار کے ماتحت ہے۔ تحریکی کارکن واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ’’فاروق ستار پر الطاف حسین کا آشیر باد ہے، اگر وہ کہیں گے تو ہم بھی پیچھے ہٹ جائیں گے۔‘‘

الطاف حسین کے بعد کوئی  شخصیت بھی ایسی نہیں جو الطاف حسین کی جگہ لے سکے لیکن پھر بھی تین ایسے نام ہیں جن کو نئے قائد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان میں فاروق ستار، عامر خان اور خالد مقبول صدیقی ہیں۔

فاروق ستار ایم کیو ایم کے اہم ترین پرانے رہنما ہیں۔ و ہ ایم کیو ایم کے پوسٹر بوائے ہیں مڈل کلاس لڑکا جنہوں نے مشکل ترین وقت میں پارٹی کو سنبھالا، ساتھ دیا اور آج ایک انتہائی مشکل دور میں ایم کیو ایم قائد کی عزت رکھتے ہوئے ، انہیں ریٹائر بھی کر دیا۔ ان کی سب سے اہم طاقت یہ ہے کہ وہ  تنظیم اور تحریک میں یکساں مقبول ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی قابل قبول ہیں۔

ستار کی طاقت کو خالد مقبول صدیقی ہی چیلنج کرتے ہیں۔ ان کا ٹریک ریکارڈ بھی شفاف ہے۔ انہوں نےہی امریکا میں پارٹی کو فعال کیا اور پھر انہیں پاکستان منتقل کیا گیا جہاں انہوں نے پارٹی میں فعال کردار ادا کیا۔ خالد مقبول صدیقی کی لندن کمیٹی سے کبھی نہیں بنی اور اکثر اپنے اختلاف کی وجہ سے انہیں باہر بھی نکال دیا گیا۔

اس قیادت کا تیسرا اہم ترین شخص عامر خان ہے۔ اس شخص کے پاس سڑکوں پر لوگ لانے کی طاقت ہے۔ اسی نے پہلے حقیقی بنائی اور پھر الطاف حسین سے معافی مانگ کر آفاق احمد کو لاچار کر دیا۔ عامر خان کی واپسی میں خالد مقبول صدیقی کا اہم کردار تھا جو پارٹی میں انیس قائم خانی اور ان کے ساتھیوں کے بڑھتے اثر و رسوخ سے تنگ تھے، کارکنوں میں اپنی طاقت کی وجہ سے قیادت کے لئے یہ بھی اہم ترین امیدوار ہیں۔

ایم کیو ایم پر صرف اسٹیبلشمنٹ کا  دباؤ نہیں بلکہ پی ایس پی اور اہل سنت والجماعت جیسے مخالفین بھی کراچی پر  قبضے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مصطفی کمال ایم کیو ایم کے لئے خطرناک ہیں کیونکہ انہوں نے آباد کاری سیل کی مدد سے کئی علاقوں میں مہاجر بستیاں بنائی اور لوگوں کو گھر دیئے۔ ان کے کاموں کی وجہ سے نوجوان انہیں پسند کرتے ہیں۔

اہل سنت والجماعت سے ایم کیو ایم کی ایک عرصے سے کراچی میں لڑائی جاری ہے۔ جب انیس قائم خانی کو پارٹی سے نکالا گیا تو ان کے لوگ اسی جماعت میں  شاملہوئے۔ ان کا کہنا  تھا کہ وہ ایک ایسی پارٹی میں شامل ہو گئے جہاں کھل کھلا کر یہ بات ہوتی ہے کہ کراچی میں شیعہ کا قتل عام کرو۔

ایم کیو ایم کی قیادت میں شیعہ افراد کی اکثریت ہے۔ تاہم اس کی وجہ سے پارٹی کے اندر کوئی مسئلہ پیدا  نہیں ہوا۔ تاہم اہل سنت والجماعت نے  اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ انہوں نے سڑکوں پر ان کے خلاف لڑنے کے لئے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ یہ لڑائی اب بھی جاری ہے لیکن اس میں کچھ کمی آئی ہے کیونکہ اب ریاست براہ راست اس لڑائی میں ملوث ہے۔

آج ایم کیو ایم کے خلاف سب لڑنے کو تیار ہیں۔ سڑکوں سے بیلٹ باکس تک، ایسے میں ایم کیو ایم کو اپنے پتے انتہائی احتیاط  سے استعمال کرنا ہوں گے۔ اپنی قیادت اور سڑکوں پر سپورٹ کی کمی  کی وجہ سے ایم کیو ایم کی طاقت آدھی ہو چکی ہے۔ تاہم اس سب کے اختتام پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاست کبھی سیاہ و سفید نہیں ہوتی۔ اس میں بہت کچھ مختلف ہوتا ہے۔

اصل آرٹیکل پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

 

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: