لیزلی ڈیرڈن(انڈی پینڈنٹ)
یورپ میں برقینی اور برقعے کی بحث شدت اختیار کر رہی ہے۔ نئی ریسرچ کے مطابق بیشتر مسلم ممالک کے مرد چاہتے ہیں کہ عورتیں اپنا سر اور منہ ڈھانپ کر رکھیں۔ یونیورسٹی آف میشی گن کے سوشل میڈیا سیل کی جانب سے کی گئی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب میں خواتین کے کپڑوں پر سخت قانون موجود ہیں لیکن اس ریسرچ میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں 50فیصد مردوں نے قوانین کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پہنیں۔
ریسرچ میں بیشتر مسلم ممالک کے مردوں نے پردے کی حمایت کی لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ خواتین کو کسی حد تک اپنے کپڑوں کے انتخاب کی آزادی ہونی چاہیے۔ جب یہ سوال کیا گیا کہ عورت کو اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پہننے کی آزادی ہونی چاہیے تو اس کے جواب میں تیونس کے 56فیصد ، ترکی کے 52فیصد اور لبنان کے 49فیصد لوگوں نے ہاں کہا۔
اس تنگ نظری میں پاکستانیوں نے سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ دیا اور صرف فیصد پاکستانیوں نے اس کی حمایت کی جبکہ 47فیصد سعودی مرد اس کے حامی تھے۔ سعود ی عرب ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں خواتین کے کپڑوں پر قانون لاگو ہے۔ عوامی مقامات پر وہ برقع پہننے کی پابند ہیں۔ ایران اور یو اے ای میں بھی ایسے قوانین موجود ہیں لیکن غیر ملکیوں کے حوالےسے کچھ نرمی ہے۔
اس سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بیشتر مسلم ممالک کے مرد چاہتے ہیں کہ خواتین سر کو ڈھانپ کر رکھیں۔ لبنان اور ترکی اس حوالے سے آزاد خیال ہیں اور ان کے نزدیک سر ڈھانپنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تاہم سعودی عرب، ایران اور پاکستان میں اس حوالے سے شدید خدشات موجوو ہیں۔ بلجیم اور فرانس میں برقعے پر پابندی کے بعد یورپ میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا یہ شخصی آزادی ہے کہ نہیں؟ تاہم جب مرد چاہتے ہیں اور خواتین ایسے سوچنے پر مجبور ہیں تو پھر کیا یہ شخصی آزادی ہے؟
جرمنی بھی اب برقعے پر پابندی پر غور کر رہا ہے جبکہ ہالینڈ میں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی ہے ۔ ادھر باسلونا نے بھی عوامی مقامات پر یہ پابندی عائد کر دی ہے۔کئی یورپی ممالک اور امریکا میں بھی اب خاص مذہبی لباس پہننے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے کیونکہ اس سے دہشت گردی کا خطری ہے۔
برطانیہ میں بھی برقعے کے حوالے سے قانون سازی کا سوچا جا رہا ہے۔ ابتدائی سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بیشتر لوگ اس پابندی کے حامی ہیں۔ تاہم ابھی تک اس معاملے میں نقاب اور حجاب کا معاملہ نہیں اٹھایا گیا۔ ادھر فرانس کی عدالتوں میں بھی برقینی کے معاملے پر کافی بحث و مباحثہ ہو رہا ہے۔ فرانسیسی کونسل نے تو برقینی پر پابندی عارضی طور پر ختم کر دی لیکن کئی مقدمات میں عدالتیں حق میں فیصلے سنا رہی ہیں۔
ایسے میں ہمیں یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا یہ مسئلہ خواتین کی اپنی پسند کا ہے یا ان سے منسلک مردوں کا۔ اگر یہ جواب سمجھ آ جائے تو مسئلے کو حل کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔