ایم کیو ایم اپنے بانی سے ناطے توڑنے کے بعد پہلے ہی امتحان میں ناکام ہوگئی۔
اگرچہ الطاف حسین بھائی کو الطاف حسین صاحب قرار دینے کے بعد پہلا امتحان کراچی کے میئر کا الیکشن تھا لیکن وہ پہلے سے جیتے ہوئے نمائندوں کے ووٹوں کی بنیاد پر ہوا۔
ایم کیو ایم پاکستان پہلی مرتبہ اپنے مینڈیٹ کی توثیق کے لئے عوام کے پاس گئی اور خالی ہاتھ لوٹی۔
سندھ اسمبلی کی یہ نشست ایم کیو ایم چھوڑ کر پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہونے والے اشفاق منگی کے استعفے کے بعد خالی ہوئی تھی۔ انہوں نے 18 اپریل کو پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔
پیپلز پارٹی کے سلمان مراد بلوچ پی ایس 127 سے سندھ اسمبلی کے رکن بن گئے ہیں جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے سابق ایم پی اے وسیم احمد اور تحریک انصاف کے ندیم میمن بھی اس نشست کے امیدوار تھے۔
یہ حلقہ شہری اور دیہی علاقوں پر مشتمل ہے جس میں ملیر کھوکھراپار، جعفر طیار، بروہی گوٹھ اور سچل گوٹھ کے علاقے شامل ہیں۔
پیپلزپارٹی 2002ء میں آخری مرتبہ یہاں سے جیتی تھی اور عبد اللہ مراد بلوچ ایم پی اے منتخب ہوئے لیکن 2004ء میں ان کے قتل کے بعد پیپلزپارٹی کو یہ نشست دوبارہ حاصل کرنے میں 12 برس لگ گئے۔
ایم کیو ایم 3 بار یہ نشست جیت چکی تھی لیکن الطاف حسین کا ساتھ چھوڑنے کے بعد شاید ووٹرز بھی اپنی جماعت کا ساتھ چھوڑ گئے۔
ایم کیو ایم نے دھاندلی کے الزامات عائد کر دیئے اور خواجہ اظہارالحسن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آر او ان کے نمائندوں سے بات کر رہے ہیں نہ انہیں فارم 14 دیئے جا رہے ہیں۔ رابطہ کمیٹی نے کہا کہ تبدیل شدہ نتائج تسلیم نہیں کئے جائیں گے۔
پاکستانی سیاست میں اس طرح کے بیانات شکست کو دیکھ کر ہارنے والی جماعت کی جانب سے آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن شکست تسلیم کرنے کے آثار اسی وقت نظر آگئے جب ایم کیو ایم کے دفاتر ویران ہوگئے اور کارکنوں کے ساتھ رہنماؤں میں بھی گھر جانا مناسب سمجھا۔
الطاف حسین کو مائنس کرنے والے ایم کیو ایم کو اب خود کو مائنس ہونے سے بچانے کا مرحلہ درپیش ہے، دیکھنا ہے کہ وہ اس میں سرخرو ہوتی ہے یا کراچی کے مینڈیٹ کے بٹوارے کی جنگ میں جس کے ہاتھ جو لگتا ہے وہ لے اڑے گا؟