کشمیر۔۔۔ انکار کی داستان

الزبتھ پرانم ۔ الجزیرہ

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہلاکتیں اور آنکھیں زخمی ہونے کے واقعات بڑھنے پر عوام کے غصے کا نشانہ سیکورٹی فورسز ہیں۔

سری نگر میں عبدالرحمان میر کے لیے ان کی بیٹے کی ہلاکت کا غم اب غصے میں بدل چکا ہے۔ وہ اپنے گھر کے مرکزی کمرے میں فرش پر بیٹھا ہے جبکہ اس کے اردگرد تیس کے قریب ہمسائے موجود ہیں۔

عبدالرحمان میر کے 24 سالہ بیٹے شبیر کو پولیس نے 10 جولائی کو مارا تھا۔ جنگجو کمانڈر برہان وانی کی بھارتی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کو ابھی دو دن ہی گزرے تھے اور وادی میں مظاہرے شروع ہوچکے تھے۔

ہمسایوں کے بہت زیادہ اصرار پر عبدالرحمان میر نے صرف اتنا کہا، ”کیا ہوا اس کے بارے میں بات کرنے سے اب کیا فائدہ ہوگا۔ مجھے صرف انصاف چاہیے۔ اس کے بعد چاہے جو بھی ہو مجھے پرواہ نہیں۔”

Abdul Rehmn MIr Kashmir

”وہ تمہارا بیٹا تھا۔ جس انتہائی کرب سے تم گزر رہے ہو یہ صرف تم ہی جان سکتے ہو۔ آج یہ تمہارے بیٹے کے ساتھ ہوا لیکن کل یہ میرے بیٹے کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں” ، عبدالرحمان میر کا ہمسایہ محمد حنیف اسے ان الفاظ میں دلاسہ دیتا ہے۔

عبدالرحمان میر بتاتا ہے کہ 10 جولائی کے دن وہ مسجد سے واپس آکر اپنے گھروالوں کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہوئے چائے پی رہا تھا کہ زور سے چلانے کی آوازیں آتی ہیں۔ گھر کی اوپر والی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو پولیس والے نچلی منزل کی کھڑکیاں تورتے نظر آئے۔ انہوں نے آنسو گیس پھینکی اور اندر گھس گئے۔

”میں نے پوچھا تم کیوں ہم پر آنسو گیس پھینک رہے ہو۔ ہم نے کیا گناہ کیا ہے؟ ہم اپنے گھر کے اندر ہیں۔ کیا تم مسلمان نہیں ہو؟” عبدالرحمان میر کا چہرہ شدید غصے میں رنگ بدل رہا تھا جب اس نے اپنی بیٹے کی موت کے حالات بیان کئے۔ اس نے بتایا کہ پولیس والوں نے اسے اور اس کی 47 سالہ بیوی کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ جب شبیر نے پولیس کو روکنے کی کوشش کی تو ”انہوں نے مرکزی دروازے کے قریب راہداری میں اس کو پیٹ میں گولی ماری۔”

”میرے بیٹے نے کھڑکی کے ذریعے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن سیکورٹی فورسز والے اس کے پیچھے بھاگے اور اس کے پیٹ میں دوسری گولی ماردی۔ اس نے چند قدم اٹھائے اور پھر زمین پر آگرا۔” عبدالرحمان میر دیوار پر نظریں جمائے یہ سب بتاتا چلاگیا۔ ”میں نے اس کو اپنے بازوؤں میں لیا۔ اس نے میرے بازوؤں میں دم توڑا۔ اس کے جیسا یہاں کوئی نہیں تھا۔”

عبدالرحمان اور شاہزادہ بانو کے 5 بچوں میں شبیر دوسرے نمبر پر تھا۔ ٹائل کے کام کا کاریگر ہونے کی وجہ سے وہ خاندان کی روزی روٹی کمانے والا بھی تھا۔

رحمان بیٹے کو یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ چار سال پہلے جب اسے دل کی بیماری لاحق ہوئی تو شبیر نے اس سے کہا، ”ابا جی، آپ نے ساری عمر ہماری دیکھ بھال میں گزاری اور بہت کام کیا۔ اب آپ کے آرام کرنے کا وقت آگیا ہے۔”

شبیر کو اس کے ہمسائے شریف النفس اور نیک نوجوان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ شبیر احمد ڈار کہتے ہیں کہ ہمارے محلے میں اس جیسا کوئی نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ سر جھکا کر چلتا تھا۔ اس کی کبھی کسی سے لڑائی نہیں ہوئی۔

مقامی افراد کے مطابق شبیر کی موت والے دن اس کے گھر کے باہر کوئی مظاہرے نہیں ہورہے تھے تاہم کچھ نوجوان جو قریبی علاقے میں احتجاج کررہے تھے وہ سیکورٹی فورسز سے بچنے کے لیے اس علاقے میں آئے۔

میر خاندان نے شبیر پر فائرنگ کرنے والے پولیس افسر کے خلاف مقامی تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی تاہم پولیس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ ہائی کورٹ نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار پر آئی جی پولیس اور ایس ایس پی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے چند دن بعد اس حکم کو معطل کردیا اور قتل کے واقعے کی انکوائری کرنے کی ہدایت دی۔

ان تحقیقات کے سلسلے میں شبیر کی لاش کو قبر سے نکال کر پوسٹ مارٹم کیا گیا لیکن اس کا نتیجہ عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔ آئی جی پولیس سید جاوید مجتبیٰ نے بے شمار کوششوں کے باوجود بھی اس واقعے پر اپنا موقف نہیں دیا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز قانونی کارروائی سے استثنیٰ کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ سماجی کارکن خرم پرویز کہتے ہیں کہ بھارت میں ہر آنے والی حکومت نے انصاف کے حصول کو ناممکن بنادیا ہے۔ کشمیر میں روا رکھے جانے والے مظالم کو ریاست نے اپنی سرپرستی میں لے لیا ہے۔ جموں اینڈ کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 1990 سے 2015 کے دوران تشدد کے 313 کیس موجود ہیں جن میں ایک ہزار پولیس اور سیکورٹی فورسز اہلکار ملوث تھے۔ ان اہلکاروں میں سے کسی کے خلاف بھی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔

Burhan Wani

دی لیجنڈ آف برہان وانی

برہان وانی ایک 22 سالہ جنگجو کمانڈر تھا جو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی وجہ سے گھرگھر جانا پہچانا نام بن گیا۔ 8 جولائی کو اس کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں بھارت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے جو گزشتہ 6 سال کے دوران ہونے والے سب سے بڑے مظاہرے تھے۔

برہان وانی کی کہانی ایک افسانوی داستان بن چکی ہے۔ وہ 15 سال کی عمر میں ہائی اسکول کا ہونہار طالب علم تھا۔ ایک بار اسے سیکورٹی فورسز نے اس کے بھائی کے ساتھ روکا۔ اگرچہ برہان کے بھائی خالد نے سیکورٹی فورسز کے کہنے پر انہیں سگریٹ لاکر دئیے تاہم پھر بھی انہوں نے اسے مارا پیٹا اور اس کی بائیک توڑ دی۔ برہان وانی نے اس واقعے کے بعد اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ دی اور حزب المجاہدین تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی جو کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔ بھارت، امریکا اور یورپی یونین اس تنظیم کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔

خالد کو پچھلے سال سیکورٹی فورسز نے یہ الزام لگا کر مار ڈالا کہ وہ برہان کے لیے جنگجوؤں کی بھرتیاں کررہا ہے تاہم ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے خالد کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ ایک علیحدگی پسند رہنما کا بھائی تھا۔

برہان وانی کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور مظاہرین سڑکوں پر اُمڈ آئے۔

عمیر گل نئی دلی کے جامعہ ملیہ اسلامی میں ریسرچر ہیں، ان کا ماننا ہے، ”وانی نے جتنے لوگ اپنی زندگی میں بھرتی کرنے تھے اس سے کہیں زیادہ وہ اپنی قبر سے بھرتی کرے گا۔”

پورے کشمیر میں برہان کا نام سنائی دے رہا ہے۔ مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز میں اس کی شان میں قصیدے پڑھے جارہے ہیں۔ دیواروں پر جگہ جگہ ”مجاہد آزادی برہان بھائی” اور ”زندہ ہے برہان” کی گرافٹی میں اس کا نام دیکھا جاسکتا ہے۔

Burhan Still Alive

سری نگر میں بھارت کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں شریک 19 سالہ عمر کا کہنا ہے ، ”برہان دہشت گرد نہیں تھا۔ وہ مجاہد آزادی تھا۔ وہ ہمارے لیے ایسے ہی تھا جیسے بھارتیوں کے لیے گاندھی تھا۔”

سری نگر کے مظاہرے میں شریک 19 سالہ فیضان یونیورسٹی کا طالب علم ہے۔ وہ کوئی 20 کے قریب لڑکوں اور آدمیوں کے ساتھ مل کر سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کررہا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کررہے ہو تو اس نے جواب دیا ”آزادی کے لیے، اور کوئی حل تو ہے نہیں۔ بھارت 1947 سے ہم پر مظالم ڈھارہا ہے۔ ہزاروں نوجوان شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ بھارتی سیکورٹی فورسز ہماری مساجد پر حملہ کرتی ہیں۔ کھڑکیاں توڑتی ہیں۔ جب ہم عبادت کررہے ہوتے ہیں تب ہمارے گھروں میں گھس آتی ہیں۔ ہماری ماؤں کو مارتی ہیں۔ بہنوں کو پیٹتی ہیں۔ ہم بھارتی حکومت سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔”

فیضان کا نشانہ سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے 20 اہلکاروں کا ایک جتھا ہے جو کچھ فاصلے پر اپنی حفاظتی شیلڈز کے ساتھ موجود ہے۔

سب انسپکٹر ہری اوم کا کہنا ہے کہ یہ لوگ صورتحال کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ وہ لوگ جو پاکستان کے نعرے لگارہے ہیں تاریخ بھول چکے ہیں۔ پاکستان ایک بار حملہ کرچکا ہے تب ہم نے آکر ان لوگوں کو بچایا تھا اور ہم اب بھی یہاں ان کی حفاظت کے لیے کھڑے ہیں۔

جب ہری اوم سے دیوار پر تحریر ”بھارتی کتو واپس جاؤ” کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ لوگوں کو بھٹکانے کے لیے کسی دوسرے ملک کا پروپیگنڈا ہوسکتا ہے۔ ”مقامی سیاستدان بچوں کے دماغ خراب کررہے ہیں۔ مظاہرین کے اس گروہ کو دیکھیں، 5 سال کا بچہ پتھر برسا رہا ہے۔ 3 سال کا بچہ مظاہرے میں شریک ہے۔ ایک بچہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ کبھی نہیں بھولتا۔ تاہم پھر بھی ہم ان لوگوں کو اپنا مانتے ہیں۔”

سب انسپکٹر کے الفاظ کشمیر پر بھارت کی روایتی تاریخ اور موجودہ حکومت کے نقطہ نظر کی بازگشت ہیں۔

Srinagar Kashmir Pakistan Flag - Copy

اٹوٹ انگ اور دوسرے ملک کا پروپیگنڈا

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اس وقت نئی دلی میں حکمران ہے اور جموں و کشمیر کی ریاستی تاریخ میں پہلی بار یہاں اتحادی حکومت کا حصہ بھی ہے۔ بی جے پی کو ریاست میں جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں حمایت حاصل ہے۔

بی جے پی کے نرمل سنگھ کشمیر کے نائب وزیراعلیٰ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اس حقیقت کو قبول نہیں کیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔

بھارتی حکومت کشمیر کو اکثر اپنا ”اٹوٹ انگ” قرار دیتی ہے۔ اٹوٹ انگ یعنی ایسا حصہ جسے جسم سے الگ نہ کیا جاسکتا ہو۔ کشمیریوں کی اکثریت اس کے برعکس محسوس کرتی ہے۔

احمد مزگار سری نگر کے لال چوک میں اپنی اخباروں کی دکان کا شٹر آدھا گرائے بیٹھا ہے۔ چالیس سالہ احمد کا کہنا ہے کہ 8 جولائی سے اب تک اس کا کافی نقصان ہوچکا ہے۔

احمد کہتے ہیں، ”مرکزی حکومت ہمیں اپنا اٹوٹ انگ کہتی ہے لیکن ہمیں اپنے عوام تسلیم نہیں کرتی۔ حکومت کو کشمیریوں کی پرواہ نہیں۔ انہیں صرف زمین چاہیے اس پر بسنے والے لوگ نہیں۔”

Kashmir Shut Down - Copy

لال چوک سہ پہر کے وقت عام طور پر لوگوں سے بھرا رہتا ہے لیکن برہان وانی کی ہلاکت کے بعد حکومت نے لوگوں کو سڑکوں پر آنے سے روکنے کے لیے کرفیو نافذ کررکھا ہے۔

کشمیر کو بھارت کے دیگر علاقوں سے ملانے والی نیشنل ہائی وے بند ہے۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہیں یا کبھی کبھار ہی کام کرتی ملتی ہیں۔ دکانیں دن بھر بند رہتی ہیں۔

کرفیو میں جن دنوں نرمی ہوتی ہے تب بچے کھیلنے کے لیے گلیوں میں نکل آتے ہیں۔ کم عمر لڑکے سائیکل کی سواری کرتے ہیں۔ عمر رسیدہ افراد اخبارات خریدنے نکلتے ہیں۔ لوگوں کے گروہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کیرم کھیلتے ہیں تاہم وہ لوگ اپنی تصاویر لینے سے منع کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے لگے گا کہ کشمیر میں حالات معمول پر ہیں۔

Kashmir Carrom Play - Copy

احمد کہتے ہیں حکومت کرفیو نافذ کرکے کشمیر کو امن و امان کا مسئلہ بتاتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کشمیر ایک سیاسی تنازع ہے اور اسے سیاسی طریقے سے ہی حل کرنا ہوگا۔ حکومت کو ہم سے بات کرنی ہوگی لیکن وہ ہمیں صرف قتل اور زخمی کرتی ہے۔

کھونے کے لیے کیا بچا ؟

کشمیر میں 9 جولائی سے جاری ریاستی تشدد کے واقعات میں 8500 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ زخمیوں میں 5 ہزار افراد چھروں والی بندوق کا نشانہ بنے ہیں۔ پیلٹ گنز کے ایک راؤنڈ میں اسٹیل کے سیکڑوں ننھے چھرے ہوتے ہیں۔

سری نگر کا شری مہاراجہ ہری سنگھ اسپتال زخمیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان میں 500 کے قریب افراد ایسے ہیں جن کی آنکھیں بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

اسپتال کی ایمرجنسی میں 18 سالہ محمد اپنے بستر پر ساکت لیٹا ہے۔ اس کے دھڑ کے اوپر والے حصے میں چھرے لگنے سے درجنوں ننھے سوراخ بنے ہوئے ہیں۔ اس کی نظریں چھت پر ٹکی ہوئی ہیں۔

محمد کے بستر پر موجود میڈیکل رپورٹ اور ایکس رے کے مطابق اس کے دل، پھیپھڑوں اور معدے میں درجنوں چھرے موجود ہیں۔ اس کا 20 سالہ کزن عامر بتاتا ہے کہ شوپیاں ضلع کے گاؤں امام صاحب میں ایک مظاہرے کے دوران محمد سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کررہا تھا جب ان لوگوں پر چھروں والی بندوقیں چلائی گئیں۔ محمد سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ دوبارہ مظاہرہ کرے گا تو اس میں اتنی طاقت بھی نہیں تھی کہ بول پاتا۔ اس کی جانب سے عامر نے جواب دیا، ”اس کے پاس کھونے کے لیے اور بچا ہی کیا ہے؟”

Mehraj Kashmir Youth Injured

محمد کی طرح 18 سالہ معراج بھی سیکورٹی فورسز پر پتھر برسا رہا تھا۔ اس کا چہرہ چھرے لگنے کے باعث زخموں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی دونوں آنکھیں زخمی اور سوجی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹرنہیں جانتے کہ اس کی سوجی ہوئی دائیں آنکھ میں بینائی باقی ہے یا نہیں۔ معراج کا کہنا ہے کہ اگر خدا نے چاہا اور اس کی آنکھ کا زخم بھرگیا تو وہ دوبارہ مظاہرہ کرے گا۔

امراض چشم کے وارڈ میں بستر دھوپ کے چشمے پہنے نوجوانوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ چھرے لگنے سے زخمی ہونے والے 5 ہزار افراد میں سیکڑوں بچے اور عام راہگیر بھی شامل ہیں جو بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔

ڈاکٹر یوسف کے مطابق 8 جولائی سے اب تک اسپتال میں چھرے لگنے سے زخمی ہونے والے ہزاروں افراد کا علاج کیا جاچکا ہے۔ ” چھرے لگنے سے زیادہ تر زخم کمر سے اوپر آئے ہیں۔ لوگوں کا سینہ، سر اور آنکھیں زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ سیکورٹی فورسز نے خاص طور سے ان کی آنکھوں کو نشانہ بنایا ہے۔”

سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ترجمان راجیش یادیو کا کہنا ہے کہ انتہائی ناگزیر حالات میں چھروں والی بندوق کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ”فوج یہاں عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں۔ سی پی آر ایف نے اب تک انتہائی ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر کوئی شخص زخمی ہوا ہے یا مارا گیا ہے تو ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب وہ کیمپ کے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کسی کو جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، اسلحہ چھیننا چاہتے ہیں یا بنکر کو آگ لگانا چاہتے ہیں تب ایسے حالات میں چھروں والی بندوق چلائی جاتی ہے۔”

یادیو نے دعویٰ کیا کہ سیکورٹی فورسز کے 1600 سے 1800 افسر اور اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں تاہم جب اس سے مطالبہ کیا گیا کہ ان زخمیوں سے ملاقات کی جاسکتی ہے تو انکار کردیا گیا۔

ڈاکٹر یوسف کا ماننا ہے کہ زخم کھانے کا خوف مظاہرین کو روک نہیں سکتا۔ ”ہمارے پاس ایسے زخمی بھی آئے ہیں جن کی آنتوں میں چھید ہوچکے تھے اور وہ ہم سے بار بار یہ پوچھتے تھے کہ وہ کب واپس جاسکتے ہیں تاکہ مظاہروں میں شریک ہوسکیں۔”

محمد اور معراج نے تسلیم کیا کہ وہ سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کررہے تھے تاہم اس کے برعکس اکثر لوگ پُرامن طریقے سے مظاہرہ کررہے تھے، راہگیر تھے یا اپنے گھروں میں تھے جب انہیں چھروں والی بندوق یا گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

Kashmir Boy Injured - Copy

سری نگر کے علاقے بیرواہ میں ایک پُرامن مظاہرے کے دوران سینے پر گولی لگنے سے 15 سالہ ریاض بھی زخمی ہوا۔ اس کا کہنا ہے کہ پولیس نے انہیں مظاہرے کی اجازت دی تھی لیکن بعد میں گولیاں چلادیں۔ دو لوگ اس واقعے میں مارے گئے اور 80 زخمی ہوئے۔ ریاض سے پوچھا گیا کہ کیا وہ دوبارہ مظاہرہ کرے گا تو اس نے مختصر سا جواب دیا، ”ہاں۔ ہم آزادی چاہتے ہیں۔”

خوف سے دُور

سری نگر سے دُور کشمیر کے جنوبی اضلاع میں ہونے والے مظاہروں میں خاصی شدت پائی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں حریت پسندوں کی اکثریت بھی ہے۔

ضلع اننت ناگ کا قصبہ بج بہارا نیشنل ہائی وے پر واقع ہے۔ مظاہرین نے بڑے پتھروں، درختوں کے تنوں اور خاردار تاروں سے راستے بند کررکھے ہیں تاکہ سیکورٹی فورسز اور میڈیا کو دُور رکھا جاسکے۔ سیکڑوں مشتعل لڑکے اور مرد فوج اور پولیس پر پتھر برساتے بھی نظر آتے ہیں۔

آنسو گیس کے شیل فائر کرنے کی آواز فضا کو چیرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ دونوں اطراف غصہ واضح نظر آتا ہے۔ ایک فوجی جوان نے فوٹوگرافر کو کالر سے پکڑ کر کھینچا اور اس سے تصاویر ضائع کرنے کا مطالبہ کیا۔ دوسرا چیخ کر بولا، ”جو کچھ ہورہا ہے تم لوگ اس کی منظر کشی کرکے بیرونی دنیا میں بھارت کا چہرہ مسخ کررہے ہو۔”

Srinagar Police Shields - Copy

2008 میں بھارتی حکومت نے ہندو یاترا کے مقام کے لیے زمین دینے کا فیصلہ کیا جس کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ 30 سالہ عاطف حسن دکاندار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے بعد انہیں تقریبا 60 بار گرفتار کیا گیا اور حفاظتی تحویل میں لیا گیا۔ کشمیریوں کا ماننا ہے کہ زمین کی منتقلی درحقیقت مسلم اکثریتی وادی میں ہندوؤں کی آباد کاری کا منصوبہ ہے تاکہ یہاں آبادی میں ہندو مسلم تناسب کو تبدیل کیا جاسکے۔ 2010 میں بھارتی فوج نے تین کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کردیا جو بعد میں بے گناہ شہری نکلے۔ اس واقعے کے بعد ہونے والے مظاہروں میں بھی عاطف حسن کو گرفتار کیا گیا۔

عاطف سے جب پوچھا گیا کہ وہ کیوں مظاہرے کرتا ہے تو اس نے جواب دیا، ” اگر ہم کچھ چاہتے ہیں تو ہمیں کچھ کھونا پڑتا ہے۔ ہم آزادی چاہتے ہیں۔ ہم وہ چاہتے ہیں جس کا 1947 میں وعدہ کیا گیا۔ جب میں چھوٹا تھا تب خوف زدہ ہوجاتا تھا لیکن اب نہیں۔ اب یہ سب خوف سے بہت دُور ہے۔”

حسن کا کہنا تھا کہ وہ بھارت سے مکمل آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا اختیار چاہتے ہیں۔

atif hassan kashmir

کشمیر میں ہر آنے والے دن کے ساتھ مظاہروں میں شدت آرہی ہے۔ لوگوں کی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ایک وقت ایسا تھا جب سیکورٹی فورسز گولی چلاتی تھیں تو لوگ کئی دن تک گھروں سے باہر نہیں آتے تھے۔ آج لوگ پولیس اسٹیشنز اور فوجی کیمپوں پر حملہ کررہے ہیں۔ بھارت خوف کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے لیکن اب یہ ضرورت سے زیادہ استعمال ہوچکا ہے۔ اور لوگ اب مزید خوف زدہ نہیں ہیں۔

” ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی!” ۔۔۔ پورے کشمیر میں یہ سب سے زیادہ سنا جانے والا نعرہ ہے۔ بھارت کے ساتھ رہیں، پاکستان میں شامل ہوں یا آزاد وطن بنے، اپنی پسند کے فیصلے کا اختیار مانگنے والے کشمیریوں کی اکثریت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کبھی اس کی اجازت نہیں دے گا۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) بی جے پی کے ساتھ کشمیر میں اتحادی حکومت چلارہی ہے اور وہ بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ پی ڈی پی کے ترجمان نعیم اختر کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم ہماری ترجیحات کی فہرست میں کہیں نہیں ہے۔ کسی شخص کا نعرہ کوئی قرارداد نہیں ہوسکتا۔

کشمیر کے نائب وزیراعلیٰ اور بی جے پی کے رہنما نرمل سنگھ بھی اسی موقف کو دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی بھی صورتحال میں ریفرنڈم ہرگز قابل قبول نہیں۔ مرکز میں بی جے پی حکومت، جموں و کشمیر کی حکومت، کانگریس اور نیشنل کانفرنس سمیت تمام بڑی جماعتوں کا یہی موقف ہے۔

A boy in Pakistan Flag - Copy

آزادی کے متوالے

کل جماعتی حریت کانفرنس رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مطالبہ کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا یہ اتحاد 1993 میں قائم ہوا تھا۔ کشمیریوں کی بڑی تعداد حریت کانفرنس کی حمایت کرتی ہے۔ اس کے باوجود حریت کانفرنس کبھی کسی حکومت کا حصہ نہیں رہی کیونکہ وہ الیکشن نہیں لڑتی۔ حریت کانفرنس کا کہنا ہے کہ وہ کبھی کشمیر پر بھارتی آئین کے اختیار کو تسلیم نہیں کریں گے۔

میر واعظ عمر فاروق حریت کانفرنس کے دھڑے ”عوامی ایکشن” کے سربراہ ہیں۔ 8 جولائی کے بعد سے انہیں گھر میں نظر بند رکھا گیا ہے اور کئی مواقع پر گرفتار بھی کیا گیا۔ میر واعظ عمر فاروق سمیت دیگر حریت رہنماؤں کو ان کے حامیوں سے دُور رکھنے کے لیے اکثر گھروں میں نظر بند کردیا جاتا ہے۔

میر واعظ عمر فاروق نے اپنے گھر سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا، ” بھارتی حکومت کشمیر کو سیاسی مسئلہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر حکومت ایسا مان لیتی ہے تو وہ ایک کمزور پوزیشن میں ہوگی کیونکہ بھارت کا سیاسی کیس نہایت کمزور ہے۔ اسی وجہ سے حکومت کہتی ہے کہ یہ دہشت گردی ہے، یہ شدت پسندی ہے، یہ اسلامی بنیاد پرستی ہے۔”

 ” شاید حکومت سیاسی جدوجہد کا سامنا کرنے کے بجائے ایک مسلح جدوجہد سے لڑنے میں خود کو آرام دہ محسوس کرتی ہے۔ انہوں نے 6 لاکھ فوجی 100 جنگجوؤں سے لڑنے کے لیے تعینات نہیں کررکھے۔ انہوں نے فوج عوام سے لڑنے کے لیے رکھی ہے کیونکہ لوگ ہی اصل طاقت کا منبع ہیں۔”

Mirwaiz Umar Farooq

حریت کانفرنس کی مقبولیت کے باوجود 2014 میں کشمیریوں کی بڑی تعداد نے ان کی ریاستی انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کو مسترد کردیا اور الیکشن میں بھرپور حصہ لیا۔ پی ڈی پی اور بی جے پی کی اتحادی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کشمیریوں کا انتخابی عمل میں شریک ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام علیحدگی پسندوں کے ”ریفرنڈم” کے بجائے ان کے ”مذاکرات” کے متبادل کی حمایت کرتے ہیں۔ حریت کانفرنس کا کہنا ہے کہ انتخابات صرف انتظامی امور کے لیے ہیں اور ان سے سیاسی مسائل کی جڑ کی نشاندہی نہیں ہوتی۔

میر واعظ عمر فاروق کا کہنا ہے، ”’جب لوگ الیکشن میں ووٹ دیتے ہیں تو وہ ان کے روز مرہ کے معاملات سے متعلق ہوتا ہے۔ انفرا اسٹرکچر، سڑکیں، پانی، بجلی، اسپتال۔ یہ کبھی ”بھارت کے لیے” ووٹ نہیں رہا۔

حریت کانفرنس انتخابی عمل کا حصہ بننے کے بجائے مظاہرے اور ہڑتالیں کیوں کرتی ہے؟ اس سوال کا جواب میر واعظ عمر فاروق نے کچھ یوں دیا، ” بھارت کے آئین کے دائرے میں اگر کوئی الیکشن ہوتے ہیں جن کا اکلوتا مقصد صرف ایسی حکومت بنانا ہو جو کشمیر پر بھارت کے دعوے کی تصدیق کرے تو بلاشبہ حریت کانفرنس کو اس سے مسئلہ ہوگا کیونکہ ہمارا نکتہ نظر کشمیر پر بالکل واضح ہے کہ یہ ایک تنازع ہے۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی اس حوالے سے نہایت واضح ہیں کہ کشمیر میں کوئی بھی الیکشن حق خود ارادیت کا نعم البدل نہیں ہوسکتا ہے۔”

حکومت اور حریت کانفرنس جس بات پر متفق ہیں وہ ان کا یہ خدشہ ہے کہ حالات مزید خراب ہوں گے۔

پی ڈی پی روایتی طور پر کشمیر میں انسانی حقوق کی محافظ کا کردار ادا کرتی آئی ہے۔ پارٹی ترجمان نعیم اختر کے مطابق انہوں نے ایسے لوگوں کی اکثریت کو متحرک کیا جو پُرامن طریقوں پر یقین رکھتے ہیں تاہم وہ آئین پر یقین نہیں رکھتے۔

تاہم وادی میں مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد بڑھنے پر پی ڈی پی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔

Srinagar Kashmir - Copy

نعیم اختر کہتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ وہ لوگ ہیں جو مرکزی دھارے میں واپس آچکے ہیں۔ وہ جنہوں نے جمہوری نظام پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ انہیں واپس اسی منجدھار میں نہیں جانا چاہیے جہاں سے ان کی واپسی مشکل بن جائے۔

میر واعظ عمر فاروق کہتے ہیں، ” 90 کی دہائی میں تحریک کا آغاز ہوا۔ 2000ء میں غصہ تھا، نوجوانوں میں لاتعلقی تھی، لیکن آج کی نسل میں بھارت کے خلاف نفرت ہے اور یہ وہ چیز ہے جو انہیں انتہا کی جانب لے جارہی ہے۔ ہر کشمیری برہان وانی میں اپنی جھلک دیکھتا ہے کیونکہ ہر کشمیری لڑکا یا نوجوان بھارتی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ظلم سہہ چکا ہے۔”

” اس پس منظر میں ، نوجوانوں کی نئی نسل، پڑھے لکھے لڑکے جنہیں دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے، ہتھیار اُٹھا رہے ہیں، وہ دوبارہ تشدد پر مائل ہورہے ہیں جو ہم قطعی نہیں چاہتے۔”

بھارتی فوج شاید مسلح بغاوت کو ختم کرچکی ہے لیکن عام کشمیریوں کی آہیں اب پہلے سے زیادہ بلند سنائی دیتی ہیں۔

الجزیرہ پر پڑھیں

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: