اسد کی بے دخلی شام کے مسئلے کا حل نہیں

الیگزینڈر ڈی سینا

امریکا مزید کارروائی کرے اب ایسا سننا حیران کن نہیں لیکن آگے کیا ہوگا؟

شام میں جنگ کے پانچ سال کے دوران خوفناک سانحوں، صدر بشار الاسد اور اس کے حامیوں کے ناقابل فراموش جرائم کے بعد امریکا سے مزید کارروائی کے مطالبے ہونا حیران کن نہیں۔ اسد حکومت کے خلاف تادیبی فضائی حملے کئے گئے، نو فلائی زون قائم ہوا اور مخالفین کو اسلحے کی سپلائی بڑھائی گئی۔ ان سب کا حتمی مقصد اسد کی اقتدار سے رخصتی ہے۔ یہ مطالبات نئے نہیں ہیں لیکن شام کے دوسرے بڑے شہر حلب کی لڑائی، کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کی مزید رپورٹس اور نومبر میں آنے والے امریکی صدارتی انتخابات کے تناظر میں عرصہ دراز سے تنقید کرنے والوں اور سابق انتظامی عہدیداروں کی جانب سے یہ مطالبات پھر زور پکڑجائیں گے۔ تاہم ایک مفروضہ بغیر کسی مخالفت کے اب بھی جوں کا توں ہے کہ اسد کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنے سے جنگ ختم ہوجائے گی۔

شام میں بڑی کارروائی کرنے کے حامیوں کا ماننا ہے کہ دباؤ بڑھانے سے اسد اقتدار چھوڑنے کے لیے بات چیت پر آمادہ ہوجائے گا۔ لیکن اب تک اس کی حکومت کے خلاف جارحیت کا ردعمل مزید جارحیت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اسد اپنی ضد چھوڑ دے اس کا کوئی امکان نہیں خاص کر جب تک اس سے اپنی سیاسی خودکشی پر مذاکرات کا مطالبہ کیا جاتا رہے گا۔ شام کے شمال مغربی علاقوں میں موجود مخالفین اسد کا سب سے بڑا متبادل ہیں جن کی بڑی تعداد انتہا پسند ہے اور وہ کسی بھی صورت ملک کے مستقبل کے لیے قابل قبول آپشن نہیں۔ اسد کا حوصلہ اس بات سے مزید بلند ہوتا ہے کہ مغرب کے پاس کوئی پلان نہیں، حتیٰ کے ان کے پاس تو ایسے مہرے بھی نہیں جو اس کی عدم موجودگی میں شام کی تعمیر نو کا کام کرسکیں۔

2015 کے موسم بہار یا شاید اس سے کچھ پہلے سے ہی حزب اختلاف کے معتدل عناصر شدت پسندوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم شام میں القاعدہ سے منسلک گروہ جبتہ النصرہ ہے جو اب نام بدل کر جبتہ فتح ال شام ہوگیا ہے اور القاعدہ سے کسی قسم کے روابط سے انکاری ہے اگرچہ یہ تعلق اب بھی قائم ہے۔ ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ معتدل اور شدت پسند گروپوں میں باضابطہ اتحاد اور غیر رسمی طریقوں سے فوجی تعاون، اسلحے اور دیگر سامان کا تبادلہ کیا گیا۔ خلیجی ممالک اور ترکی میں موجود حزب اختلاف کے حامیوں نے شدت پسند عناصر کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خلاف عناصر کی مدد میں کمی نہیں کی اور مسئلے کو مزید پیچیدہ بننے دیا۔

Syria Jarablus - Copy

مغرب میں عام طور پر نصرہ اور داعش کو شام میں انتہا پسند گروپ سمجھا جاتا ہے تاہم خزب اختلاف میں شدت پسندی کی جڑیں اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ حزب اختلاف میں موجود سب سے طاقتور قوتیں مغرب کے نکتہ نظر کا خیال رکھتے ہوئے خود کو معتدل بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے شام میں اعتدال پسندی اور معاشرے کی تقسیم پر بہت کچھ رٹ رکھا ہے جسے وہ بحث کے دوران اگلتے بھی ہیں تاہم وہ بمشکل اعتدال پسند ہیں۔ ان گروہوں اور نصرہ جیسے ”اصلی شدت پسندوں” کے درمیان اختلافات حقیقی نظریاتی اختلاف کے بجائے تعلقات عامہ کی راہ ہموار کرنے کی کوشش زیادہ لگتے ہیں۔

مثال کے طور پر احرار ال شام کے القاعدہ سے باضابطہ تعلقات نہیں ہیں تاہم اس کی مرکزی قیادت سے ان کے رابطے ہیں اور وہ عملی طور پر افغان طالبان کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ احرار ال شام، جیش الاسلام اور دوسرے  گروہوں پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا بھی الزام ہے۔ نور الدین الزنکی گروپ کو معتدل خیال کیا جاتا تھا اور اسے امریکا سے مدد بھی ملتی رہی ہے تاہم اس نے جولائی میں اسد کے لیے لڑنے کے الزام میں ایک 12 سالہ فلسطینی لڑکے کا سر قلم کردیا۔ اسد اور روس کی اکثر اس بنا پر مذمت کی جاتی ہے کہ وہ تمام باغیوں کو ”دہشت گرد” قرار دیتے ہیں، تاہم ناقدین کے پاس حزب اختلاف میں سرایت کرچکی حقیقی شدت پسندی کا کوئی جواب نہیں۔

شام میں شدت پسندی کی بڑی ذمہ داری اسد پر عائد ہوتی ہے جس کی وجہ صرف اس کے جنگی جرائم نہیں بلکہ جنگ کے آغاز میں سدنایا جیل سے شدت پسندوں کی رہائی بھی ہے تاکہ مخالفین کو خراب کیا جاسکے۔ شدت پسندی ایک حقیقت ہے اس بات سے انکار کرنا بہت بڑی بے وقوفی ہوگی۔

Free Syrian Army - Copy

اگر مغرب واقعی مناسب فوجی طاقت استعمال کرکے لڑائی کے بعد اسد کو نکال باہر کرے تو شاید اس کی حکومت کے حامی کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ حزب اللہ شاید شام ہی چھوڑ دے۔ عراقی جنگجو بھی شاید اپنے وطن واپس جاکر داعش سے لڑائی کریں۔ اور جب کوئی حکومت ہی باقی نہ رہے جس کی حمایت کرنی ہو تو شاید ایرانی اور روسی فوجیں بھی واپسی کی راہ اختیار کرلیں۔ ایران کی جانب سے امکان ہے کہ وہ اسد کی وفادار فوج کو ہتھیار اور امداد فراہم کرتا رہے گا تاکہ اس کا شام کے ساتھ تعلق برقرار رہے۔ تاہم اس کا اثرورسوخ اور مداخلت کافی حد تک کم ہوچکی ہوگی۔

اس سب کے باوجود اسد کی اقتدار سے بے دخلی طویل مدت کے لیے افراتفری کو جنم دے گی۔ مغرب کو انتہا پسند اور ٹکڑوں میں بٹی حزب اختلاف کے ساتھ مل کر شام کی تعمیر نو میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اسد کے بعد اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ آپس میں لڑائی شروع کردیں گے۔ یہ ”جنگ کے بعد جنگ” ایک ایسا شام تشکیل دے گی جو کسی مرکزی اتھارٹی یا حتی کے علاقائی حکومتوں کے کنٹرول میں بھی نہیں ہوگا بلکہ اس پر مختلف جنگجو گروپ حکمرانی کریں گے۔

نصرہ جیسے سخت گیر طاقتور گروہ کمزور اعتدال پسند گروہوں پر غالب آجائیں گے اور شام ان کے لیے ایک جاگیر کی شکل اختیار کرلے گا۔ جنگجو سردار رقبے پر قبضے کے لیے ایک دوسرے سے لڑیں گے اور اگر انہیں مغربی یا سیکولر فوجوں کا سامنا کرنا پڑا تو شام پر مرکزی اقتدار اور قانون کی حکمرانی کی مخالفت میں وہ اکٹھے بھی ہوجائیں گے۔ یہ لڑائی شاید شام کی پانچ سالہ جنگ سے شدت میں کم ہو لیکن دہائیوں تک چلتی رہے گی۔

Syria Dael - Copy

ان جنگجو گروپوں کے مقاصد شام سے باہر کے نہیں ہیں اور یہ ایسی تنظیموں سے تعاون کریں گے جو عارضی مقاصد رکھتی ہوں ۔ افغانستان اور لیبیا میں موجود گروہوں کی طرح جن پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ، یہ بھی ممکنہ طور پر شرپسندوں کو پناہ گاہیں، تربیت، اسلحہ اور افرادی قوت فراہم کریں گے۔ ایسا ہوا تو اس سے مغرب اور خطے کو انتہائی سنگین مسائل کا سامنا ہوگا۔

اس صورتحال میں مغرب معتدل عناصر کی کیسے مدد کرسکتا ہے؟ مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے سینئر تجزیہ کار چارلس لسٹر کے خیال میں معتدل عناصر کو مزید مسلح کرنا چاہیے۔ واشنگٹن انہیں اس قدر طاقت فراہم کرے کہ وہ نصرہ اور دیگر سخت گیر عناصر سے نمٹ سکیں۔ یہ بہت خوش کن خیال ہے۔ اگرچہ لسٹر نے صرف فری سیرین آرمی جیسے گروہ کو ہتھیار فراہم کرنے کی بات کی ہے تاہم حزب اختلاف کے گروہ آپس میں اس طرح گڈمڈ ہیں کہ ایف ایس اے کو فراہم کئے جانے والے ہتھیار آخر کار طاقتور شدت پسند جنگجوؤں کے ہتھے لگ جائیں گے۔ اسد کے بعد والے شام میں اگر فری سیرین آرمی ان گروہوں سے لڑنے کا فیصلہ بھی کرتی ہے تو اس کی جیت کا امکان نظر نہیں آتا۔ معتدل عناصر کو فراہم کئے جانے والے کوئی بھی ہتھیار آنے والی دہائیوں میں غلط ہاتھوں میں گردش کرتے رہیں گے۔

اعتدال پسندوں کی دُور بیٹھ کر مدد کرنا، ان کو ہتھیاروں اور امداد کی فراہمی، ترکی اور اردن میں قائم مراکز میں تربیت، محدود فضائی اور زمینی آپریشن کے ذریعے مدد کرنا ان کی فتح کے لیے اور مرکزی نظام حکومت سے جڑے رہنے کے لیے ناکافی ہوگا۔ اس افراتفری کے ماحول میں نئے ریاستی اداروں کی تعمیر کو ممکن بنانا غیرمنطقی لگتا ہے۔

Syria airstirke girls survuved - Copy

اس سال کے آغاز میں سعودی عرب، ترکی، قطر اور متحدہ عرب امارات نے شام میں فوجی دستے بھیجنے کا عندیہ دیا تاہم ایسی کوئی وجہ نہیں کہ اس وعدے پر اعتبار کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا بھی تو زیادہ سے زیادہ علامتی کارروائی ہوگی۔ امریکا اور مغربی اتحادیوں کو ملک پر قبضہ جمانا ہوگا۔ اس کارروائی کے لیے انہیں زمین پر فوجوں کی تعداد عراق کی طرح ایک لاکھ 80 ہزار تک بڑھانی ہوگی جو شاید پھر بھی اس کام کے لیے ناکافی ہوں گے۔ فوجوں کو پھر یہاں سے عراق میں جاری لڑائی میں بھی بھیجا جاسکتا ہے، اور مغربی افواج پورے خطے سے اکٹھے ہوئے جنگجوؤں کے نشانے پر بھی ہوں گی۔ اگر شام پر قبضے کے لیے امریکی عوام کی حمایت مل بھی جائے پھر بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ مضبوط اداروں والی ایک معتدل ریاست وجود میں آئے گی۔

ایک مثالی دنیا میں شام کو اسد سے نجات ملنی چاہیے۔ درست اقدامات کئے جائیں تو ایسا ممکن بھی ہے۔ واشنگٹن کو اس مقصد کے لیے خلیج میں بیٹھے حزب اختلاف کے حامیوں کو قائل کرنا ہوگا۔ اسد کی رخصتی کے لیے طویل مدتی تبدیلی کے عمل کو قبول کرنا ہوگا اور شام میں موجودہ نظام حکومت کے تحت آئینی اصلاحات ممکن بنانا ہوں گی۔ اس صورت میں شاید ایران اور روس بھی اسد کی اقتدار سے بے دخلی پر آمادہ ہوجائیں کہ جنگ کے خاتمے کا ایسا حل نکالا جائے جس میں ان کے مفادات بھی محفوظ رہیں۔ جنگ کو ہوا دینے اور زبردستی اسد کو اقتدار سے نکالنے کے انتہائی خوفناک نتائج ہوں گے جنہیں سالوں نے آنے والی کئی دہائیوں تک بھگتنا پڑے گا۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: