کشمیر۔۔۔ خوف سے دُور

الزبتھ پرانم ۔ الجزیرہ

سری نگر سے دُور کشمیر کے جنوبی اضلاع میں ہونے والے مظاہروں میں خاصی شدت پائی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں حریت پسندوں کی اکثریت بھی ہے۔

ضلع اننت ناگ کا قصبہ بج بہارا نیشنل ہائی وے پر واقع ہے۔ مظاہرین نے بڑے پتھروں، درختوں کے تنوں اور خاردار تاروں سے راستے بند کررکھے ہیں تاکہ سیکورٹی فورسز اور میڈیا کو دُور رکھا جاسکے۔ سیکڑوں مشتعل لڑکے اور مرد فوج اور پولیس پر پتھر برساتے بھی نظر آتے ہیں۔

آنسو گیس کے شیل فائر کرنے کی آواز فضا کو چیرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ دونوں اطراف غصہ واضح نظر آتا ہے۔ ایک فوجی جوان نے فوٹوگرافر کو کالر سے پکڑ کر کھینچا اور اس سے تصاویر ضائع کرنے کا مطالبہ کیا۔ دوسرا چیخ کر بولا، ”جو کچھ ہورہا ہے تم لوگ اس کی منظر کشی کرکے بیرونی دنیا میں بھارت کا چہرہ مسخ کررہے ہو۔”

Srinagar Police Shields - Copy

پہلا حصہ ۔ کشمیر دُکھ کے درمیان انکار کی داستان

دوسرا حصہ ۔ دی لیجنڈ آف برہان وانی

2008 میں بھارتی حکومت نے ہندو یاترا کے مقام کے لیے زمین دینے کا فیصلہ کیا جس کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ 30 سالہ عاطف حسن دکاندار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے بعد انہیں تقریبا 60 بار گرفتار کیا گیا اور حفاظتی تحویل میں لیا گیا۔ کشمیریوں کا ماننا ہے کہ زمین کی منتقلی درحقیقت مسلم اکثریتی وادی میں ہندوؤں کی آباد کاری کا منصوبہ ہے تاکہ یہاں آبادی میں ہندو مسلم تناسب کو تبدیل کیا جاسکے۔ 2010 میں بھارتی فوج نے تین کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کردیا جو بعد میں بے گناہ شہری نکلے۔ اس واقعے کے بعد ہونے والے مظاہروں میں بھی عاطف حسن کو گرفتار کیا گیا۔

atif hassan kashmir

عاطف سے جب پوچھا گیا کہ وہ کیوں مظاہرے کرتا ہے تو اس نے جواب دیا، ” اگر ہم کچھ چاہتے ہیں تو ہمیں کچھ کھونا پڑتا ہے۔ ہم آزادی چاہتے ہیں۔ ہم وہ چاہتے ہیں جس کا 1947 میں وعدہ کیا گیا۔ جب میں چھوٹا تھا تب خوف زدہ ہوجاتا تھا لیکن اب نہیں۔ اب یہ سب خوف سے بہت دُور ہے۔”

حسن کا کہنا تھا کہ وہ بھارت سے مکمل آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا اختیار چاہتے ہیں۔

کشمیر میں ہر آنے والے دن کے ساتھ مظاہروں میں شدت آرہی ہے۔ لوگوں کی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ایک وقت ایسا تھا جب سیکورٹی فورسز گولی چلاتی تھیں تو لوگ کئی دن تک گھروں سے باہر نہیں آتے تھے۔ آج لوگ پولیس اسٹیشنز اور فوجی کیمپوں پر حملہ کررہے ہیں۔ بھارت خوف کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے لیکن اب یہ ضرورت سے زیادہ استعمال ہوچکا ہے۔ اور لوگ اب مزید خوف زدہ نہیں ہیں۔

تیسرا حصہ ۔ اٹوٹ انگ اور دوسرے ملک کا پروپیگنڈا

چوتھا حصہ ۔ کشمیر۔۔۔ کھونے کے لیے کیا بچا ؟

” ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی!” ۔۔۔ پورے کشمیر میں یہ سب سے زیادہ سنا جانے والا نعرہ ہے۔ بھارت کے ساتھ رہیں، پاکستان میں شامل ہوں یا آزاد وطن بنے، اپنی پسند کے فیصلے کا اختیار مانگنے والے کشمیریوں کی اکثریت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کبھی اس کی اجازت نہیں دے گا۔

Srinagar Protest - Copy

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) بی جے پی کے ساتھ کشمیر میں اتحادی حکومت چلارہی ہے اور وہ بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ پی ڈی پی کے ترجمان نعیم اختر کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم ہماری ترجیحات کی فہرست میں کہیں نہیں ہے۔ کسی شخص کا نعرہ کوئی قرارداد نہیں ہوسکتا۔

کشمیر کے نائب وزیراعلیٰ اور بی جے پی کے رہنما نرمل سنگھ بھی اسی موقف کو دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی بھی صورتحال میں ریفرنڈم ہرگز قابل قبول نہیں۔ مرکز میں بی جے پی حکومت، جموں و کشمیر کی حکومت، کانگریس اور نیشنل کانفرنس سمیت تمام بڑی جماعتوں کا یہی موقف ہے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: