پامیلا کی ’’پورن کے خلاف جنگ ‘‘غلط

سنڈی گیلپ (انڈی پینڈنٹ)

پامیلا اینڈرسن نے اپنے آرٹیکل میں لوگوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پورن فلمیں نہ دیکھیں تاہم یہ مطالبہ بالکل جاہلانہ ہے۔ سمجھ نہیں آرہی کہ اس پاگل عورت کے بارے میں کہاں سے لکھنا شروع کروں۔ یہ بات غلط ہے کہ صرف مرد ہی پورن فلمیں دیکھتے ہیں، عورتیں بھی انہیں بہت شوق سے دیکھتی ہیں۔

اس سب کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم سب کچھ فلموں میں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور خود اس کا تجربہ نہیں کرنا چاہتے۔ پورن فلم مسئلہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ  ہم سیکس کے بارے میں کھل کر معاشرتی سطح پر بات کرنے کو تیار نہیں۔

میں صرف پامیلا کی یہ بات تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ ہمیں اپنی نجی اور سماجی زندگی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تاہم میں ان کا نکتہ نظر تسلیم نہیں کرتی۔ ہم انٹرنیٹ کے ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں انٹرنیٹ استعمال کرنے والا 8 سال کا بچہ  پورن فلم کا تجربہ حاصل کر لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ پورن فلم ڈھونڈ رہا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی یہ اس کے سامنے آ جاتی ہیں۔

انسان کو اب یہ سمجھنا ہو گا کہ ہم سب کی جنسیات ہیں۔ ہمیں اس سب کو اپنی زندگی کا حصہ بننا ہو گا  اور اس پر بات کرنا ہو گی۔ ہمیں حیران ہو کر یہ کہنا بند کرنا ہو گا کہ وہ پورن فلم دیکھتا ہے؟ یقین نہیں آتا۔ حالانکہ ہم سب دیکھتے ہیں۔

مزاج میں تبدیلی پر میرا مؤقف ہے کہ انسان اپنی جنسی اقدار کے بارے میں بات کرے۔ جب بھی میں نے کسی سے جنسی اقدار کے بارے میں سوال کیا تو وہ خاموش ہو گیا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

ہمارے ماں باپ ہمیں اچھے آداب سکھاتے ہیں۔ تاہم ہمیں بستر کے آداب کے بارے میں کوئی بھی نہیں بتاتا۔ اگر ہمیں گھر اور آفس کے آداب سکھائے جاتے ہیں تو بستر کے کیوں نہیں؟ کیا وہاں ایماندار ہونا ضروری نہیں؟

مزاج میں تبدیلی تب آئے  گی جب بچوں کو بڑے  جنسی تعلیم دیں گے۔ جب بچوں کو بڑے پورن فلم اور حقائق کی دنیا سے آگاہ کریں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پورن بھی دیکھی جاتی رہے گی اور بچوں پر منفی اثرات بھی ہوں گے۔ اگر ہمیں ان سے بچنا ہے تو ہمیں خود ہی بچوں کو سمجھنا ہو گا۔ صرف یہ کہہ کر کے پورن نہ دیکھو مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

ہم اب تک یہ تسلیم نہیں کر پا رہے کہ ہماری شخصیت، لوگوں سے تعلق اور رویے جنسیات پر مبنی ہیں۔ اس کو مد نظر رکھ کر ہی ہم اپنے رشتوں میں بہت سے فیصلے کرتے ہیں۔

بے شک ہم پورن دیکھ کر خوش ہوتے ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایمانداری سے اپنی جنسی اقدار کا اظہار نہیں کرتے۔ تبدیلی یہ نہیں کہ پابندی لگا دو، بند کر دو بلکہ یہ ہے کہ اس کو عام کردو، اس پر بات کرو۔

انتہا تو یہ ہے کہ پامیلا ایک ایسی سائٹ بنانا چاہتی ہیں کہ جہاں حقیقت پر مبنی جنسی تعلق پر بات اور دوسرے موضوع زیر بحث لائے جائیں ۔ ان میں اور پورن میں زیادہ فرق نہیں ہو گا بس یہ کہ پامیلا اس  سے پیسے کمائیں گی۔

میں نے اپنے ایک کھلے خط میں ڈیوڈ  کیمرون سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ ’’پورن کے خلاف جنگ ‘‘ بند کریں۔ تبدیلی تب آ ئے گی جب ہم پورن پر حیران ہونا بند کر کے اس پر بات کریں گے۔ ہم جنسی تعلق کو عام موضوع بنانے کی ضرورت پر زور دینا چاہیے۔ ’’میک سیکس ناٹ پورن ‘‘ جیسے مقامات لوگوں کو حقیقی دنیا میں جنسی تعلیم دیتے ہیں تاکہ انہیں اس علم پر پشیمانی نہ ہو۔

انسان ہزاروں سالوں سے مذہبی رسومات میں بھی جنسی تعلق کا سہارا لے رہا ہے تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ تاہم ترقی یافتہ کہلانے کے باوجود ہم اب بھی اپنے آباؤ اجداد سے بہت پیچھے ہیں کیونکہ انہوں نے اس مسئلے پر صدیوں پہلے بات کرنا شروع کر دی تھی۔ وہ اس میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے لیکن ہم کرتے ہیں۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: