الزبتھ پرانم ۔ الجزیرہ
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اس وقت نئی دلی میں حکمران ہے اور جموں و کشمیر کی ریاستی تاریخ میں پہلی بار یہاں اتحادی حکومت کا حصہ بھی ہے۔ بی جے پی کو ریاست میں جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں حمایت حاصل ہے۔
بی جے پی کے نرمل سنگھ کشمیر کے نائب وزیراعلیٰ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اس حقیقت کو قبول نہیں کیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
بھارتی حکومت کشمیر کو اکثر اپنا ”اٹوٹ انگ” قرار دیتی ہے۔ اٹوٹ انگ یعنی ایسا حصہ جسے جسم سے الگ نہ کیا جاسکتا ہو۔ کشمیریوں کی اکثریت اس کے برعکس محسوس کرتی ہے۔
احمد مزگار سری نگر کے لال چوک میں اپنی اخباروں کی دکان کا شٹر آدھا گرائے بیٹھا ہے۔ چالیس سالہ احمد کا کہنا ہے کہ 8 جولائی سے اب تک اس کا کافی نقصان ہوچکا ہے۔
احمد کہتے ہیں، ”مرکزی حکومت ہمیں اپنا اٹوٹ انگ کہتی ہے لیکن ہمیں اپنے عوام تسلیم نہیں کرتی۔ حکومت کو کشمیریوں کی پرواہ نہیں۔ انہیں صرف زمین چاہیے اس پر بسنے والے لوگ نہیں۔”
لال چوک سہ پہر کے وقت عام طور پر لوگوں سے بھرا رہتا ہے لیکن برہان وانی کی ہلاکت کے بعد حکومت نے لوگوں کو سڑکوں پر آنے سے روکنے کے لیے کرفیو نافذ کررکھا ہے۔
پہلا حصہ پڑھیں ۔ کشمیر دُکھ کے درمیان انکار کی داستان
دوسرا حصہ پڑھیں ۔ دی لیجنڈ آف برہان وانی
کشمیر کو بھارت کے دیگر علاقوں سے ملانے والی نیشنل ہائی وے بند ہے۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہیں یا کبھی کبھار ہی کام کرتی ملتی ہیں۔ دکانیں دن بھر بند رہتی ہیں۔
کرفیو میں جن دنوں نرمی ہوتی ہے تب بچے کھیلنے کے لیے گلیوں میں نکل آتے ہیں۔ کم عمر لڑکے سائیکل کی سواری کرتے ہیں۔ عمر رسیدہ افراد اخبارات خریدنے نکلتے ہیں۔ لوگوں کے گروہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کیرم کھیلتے ہیں تاہم وہ لوگ اپنی تصاویر لینے سے منع کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے لگے گا کہ کشمیر میں حالات معمول پر ہیں۔
احمد کہتے ہیں حکومت کرفیو نافذ کرکے کشمیر کو امن و امان کا مسئلہ بتاتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کشمیر ایک سیاسی تنازع ہے اور اسے سیاسی طریقے سے ہی حل کرنا ہوگا۔ حکومت کو ہم سے بات کرنی ہوگی لیکن وہ ہمیں صرف قتل اور زخمی کرتی ہے۔