ہماری کتاب یا تعلیم نہیں

نائیجل ولسن

مقبوضہ فلسطین میں ہزاروں  بچوں  کا یکم ستمبر سے اسکول کا نیا سال  شروع ہو گیا۔ تاہم اساتذہ، این جی اوز اور والدین کا احتجاج بھی شروع ہو گیا ہے کیونکہ اسرائیل نے صرف ان اسکولوں کو فنڈ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو اسرائیلی نصاب پڑھائیں گے اور فلسطینی نصاب کو اسکول کے احاطے میں بھی داخل نہیں ہونے دیں گے۔

مقبوضہ بیت المقدس  وزارت برائے ثقافت  کو جون 2015 میں دوبارہ فعال بنایا گیا ہے۔ اس وزارت نے صرف ان اسکولوں کو 5.3 ملین ڈالر  دینے کا اعلان کیا ہے  جو اسرائیلی نصاب کو پڑھائیں گے۔ مشرقی یروشلم  کے 180 اسکولوں کو  اسرائیلی وزارت تعلیم فنڈ مہیا کرتی ہے۔ ان اسکولوں میں نجی، سرکاری سمیت ہر قسم کا تعلیمی ادارہ شامل ہے۔

اسرائیلی کے زیر تسلط مشرقی یروشلم میں شہر کے بیشتر اسکول موجود ہیں جہاں سے تمام بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہاں کے بچے اب تک فلسطینی نصاب کے تحت ہی پیپرز دیتے ہیں۔ یہ فلسطینی نصاب 1994 میں فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے بعد لاگو ہوا تھا۔ کئی سالوں سے قبضے کے بعد اسرائیلی حکومت اسکولوں کو فنڈ فراہم کرتی رہی لیکن یہ بچے فلسطینی نصاب ہی پڑھتے رہے۔ پچھلے سال صرف 10 فیصد بچوں نے اسرائیلی  نصاب کے تحت پیپر دیئے۔

اس سے قبل فلسطین میں اردن کا نظام تعلیم رائج تھا اور انہی کے اسکولوں کے نصاب کی مدد سے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔

اسرائیل کے منصوبے پر فلسطینی حکام اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شدید احتجاج کر رہی ہیں۔ حالانکہ ابھی تک اس پر عمل درآمد شروع نہیں ہوا لیکن سب جانتے ہیں کہ اسرائیل نے یہ کہہ دیا ہے تو اب عمل درآمد بھی ہو گا۔ ناقدین کے مطابق یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

East Juresalem School

عرب اقلیتوں کی نمائندے سواسن ظہیر کا کہنا ہے کہ ’’یروشلم ایک مقبوضہ علاقہ ہے۔ یہاں عالمی قوانین کے تحت اسرائیل اپنا نصاب رائج نہیں کر سکتا۔ 1967 سے اس علاقے میں سیاسی کشیدگی موجود ہے جس کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ عالمی قوانین کے مطابق ایسے علاقوں میں لوگوں کو اپنا طرز زندگی رکھنے کا اختیار ہوتا ہے۔ قابض افواج کو کسی طور پر یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ  وہ اس میں مداخلت کریں۔ ماسوائے فوجی ضروریات کے تحت۔‘‘

اسرائیل کے صیہونی وزیر تعلیم کے مطابق متحدہ یروشلم کا تعلیمی سال ہے کیونکہ اس سال ہی یروشلم پر اسرائیلی قبضے کو 50 سال مکمل ہوں گے۔ تاہم وسائل کے اعتبار سے مشرقی اور مغربی یروشلم میں تقسیم کافی واضح ہے۔ مشرقی یروشلم میں کلاس رومز کا فقدان ہے۔ بیشتر اسکول کرائے کی عمارتوں میں بنے ہیں۔ ان عمارتوں کی حالت بھی انتہائی خستہ ہے۔

والدین کے مطابق ’’میونسپل کمیٹی نے  اسکولوں کے لئے نئی عمارتیں بنانے کے بجائے پرانی عمارتوں کے فلیٹوں میں اسکول بنا لئے ہیں۔ یہاں بچے 20 سینٹی میٹر سے بھی کم فاصلے پر بیٹھے ہیں۔ بیشتر اسکول انتہائی پرانے ہیں۔ انہیں فوری طور پر بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس مسئلے کے مستقل حل کے لئے فنڈز کی ضرورت ہے جو اس وقت فلسطینی حکام کے پاس نہیں ہیں۔‘‘

اسرائیلی سول رائٹ گروپ کا کہنا ہے کہ ’’مشرقی یروشلم میں میونسپل کمیٹی نے بہت سے نئے اسکول بنائے لیکن ان کی رفتار آبادی میں اضافے کی رفتار سے کم تھی۔  یہ مسئلہ اتنا سنگین ہو گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا کہ حکومت بچوں سے تعلیم کا بنیادی حق چھین رہی ہے۔ اس پر رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے۔‘‘

نئے تعلیمی سال کے موقع پر ایک بار پھر کلاس رومز کی انتہائی قلت موجود ہے۔ اس سال صرف 261 کلاس رومز کا اضافہ کیا گیا حالانکہ ضرورت اس سے 10 گنا زیاد ہ ہے۔ 2016 میں اسکولوں کے لئے 2.1 ملین ڈالر جاری کیے گئے  جبکہ ان کے لئے 11.1 ملین ڈالر مختص کیے گئے تھے۔

مثال کے طور پر مغربی یروشلم میں بیت الہنا ہائی اسکول کو 4.3 ملین ڈالر دیئے گئے جبکہ مشرقی یروشلم  کے راس المد بوائز اسکول کو 0.76 ملین ڈالر دیئے گئے حالانکہ دونوں اسکولوں میں آبادی ایک جتنی ہے۔ مشرقی یروشلم میں ڈراپ آؤٹ ریٹ بھی  مغربی اسکولوں سے کہیں زیادہ ہے۔ مغربی یروشلم میں ڈراپ آؤٹ سے بچنے کے لئے 21 مختلف پروگرام کام کر رہے ہیں جبکہ مشرقی یروشلم میں 8 ایسے پروگرام ہیں جن میں سے بیشتر غیرفعال ہیں۔

اسرائیلی انسانی حقوق کے وکیل کا کہنا ہے کہ ملکی قوانین اور آئین کے مطابق بھی تعلیم کے شعبے میں ایسا امتیاز غیر قانونی ہے لیکن حکومت اپنی پالیسی کو کامیاب بنانے کے لئے ہر حد پار کرنے کے لئے تیار ہے۔

در حقیقت اسرائیل یہ بات جانتا ہے کہ مشرقی یروشلم کبھی بھی ان کی نصاب سے متعلق بات کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اس وجہ سے وہ اسکولوں میں امتیاز قائم کر کے یروشلم کو مستقل طور پر توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: