لوگ عوامی نمائندے کیوں بننا چاہتے ہیں؟

نیلم

عوامی نمائندگی ہے کیا؟یہ صرف مقامی بلدیاتی نمائندگی تک کی بات نہیں بلکہ اسمبلی یا پارلیمنٹ تک کی بات ہے۔ گاؤں ایک بہت چھوٹی جگہ ہے، جہاں سب ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہیں، وہاں پارٹی کا سہارا (ٹكٹ) کم ہی لوگ لیتے ہیں کیونکہ امیدوار خود تمام لوگوں تک پہنچ سکتا ہے۔ایسے میں ذاتی تعلقات پارٹی پر حاوی ہوتے ہیں۔

شہروں میں آبادی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ وہاں ایجنڈا، منشور اور پارٹی ٹکٹ سمیت بہت سے اہم  پہلوؤں کو ووٹ دیتے ہوئے مد نظر رکھا جاتا ہے۔کسی بھی  پارٹی بنانے کے پیچھے بھی زیادہ تر یہی منشا ہوتی ہے کہ ایک بڑے مقصد کو حاصل کیا جا سکے یعنی لوگوں کی اجتماعی بہتری ۔ اگر ایک نمائندے منتخب ہو جائے تو وہ ذاتی مفاد کو  ترجیح دے گا۔ ایسے میں فرد واحد ہی سیاسی اور سماجی طاقت کا مرکز بن جاتا ہے۔

پارٹی اس فرد کی طاقت کو اجتماعی بہتری کے لئے استعمال کرتی ہے۔ تاہم موجود جماعتیں انفرادیت  سے بھری پڑی ہیں۔ ذاتی مفاد کو ترجیح حاصل ہو گئی ہے۔ انفرادی سوچ رکھنے والوں کا جمگٹھا اب ہماری سیاسی پارٹیوں کی حقیقت بن گیا ہے۔ ان کا عوام کے مفاد سے کوئی لینا دینا نہیں ۔

یہ لوگ صرف سرکاری فنڈز،  جائیداد اور تمام سہولیات کی ذاتی بندر بانٹ میں لگے ہیں۔ آج ٹكٹ فروخت کرنے والی پارٹیوں سے ٹكٹ خرید کر عوامی نمائندے بننے میں ایسے انفرادی سوچ رکھنے والے لوگ سب سے آگے ہیں۔ یہ لوگ تعمیراتی شعبے سے منسلک ہیں یا معاشرے میں مجرمانہ دھندے کے کاروبار سے منسلک ہیں ۔ ان میں بڑے سرمایہ داروں کے بہت قریبی دلال بھی شامل ہیں۔

عوام تو ابھی دو وقت کی روٹی کے مسئلے سے ہی نہیں نکلے ۔ ان لوگوں کو تو ٹیکسوں نے ہی مار دیا ہے لیکن پھر بھی حکومت ہمیشہ ناراض ہی رہتی ہے کہ انہیں عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ حالانکہ عوام ایک صابن سے اے سی تک ہر چیز پر ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ پھر بھی عوام کو خود بھی احساس نہیں کہ وہ حکومت کو کتنا کچھ دے رہے ہیں۔

وہ اپنی روزی روٹی میں کچھ یوں الجھے ہیں کہ حقیقت سے دور ہو گئے ہیں۔ ساتھیوں کو لوٹنے کے اس دور میں عوام بھی کچھ پیچھے نہیں۔ نفسا نفسی کے اس دور میں گھر اور اردگرد کے لوگ بھی ہمیشہ  تاک میں رہتے ہیں۔ موقع ملتے ہی وہ اپنے پڑوسی عزیزواقارب کو لوٹنے سے پرہیز نہیں کرتے۔

مذہب کے ٹھیکیدار بھی تاک لگائے رہتے ہیں۔ وہ بھی ہر وقت اپنی دکان پر رش بڑھانے کے لئے کوئی نہ کوئی جتن کیے رکھتے ہیں۔ ایسے میں معاشرے کے ٹھیکیداروں اور سیاسی بازی گروں میں سخت مقابلہ ہے۔ یہ مقابلہ صرف اور صرف آمدنی بڑھانے کا ہے۔ ہر طرف لوٹ کھسوٹ کرنے والے کے نیٹ ورک موجود ہیں ۔ہر طرف ایسے جعلساز موجود ہیں جن کے چکر میں عام آدمی پھنسا ہوا ہے۔

ان حالات میں آزاد سوچ، حق اور عوامی حقوق کی جنگ لڑنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایک عام شخص  کے لئے اتنے طاقتور طبقات سے کے خلاف جدوجہد بہت مشکل کام ہےلیکن تنظیم اور سائنسی خیالات والوں سے جڑ کر یہ جنگ آسانی سے لڑی جا سکتی ہے۔

اس لئے آج جمہوریت میں جمہوریت کو بچائے رکھنے اور عوامی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے کمیونسٹ خیالات کی جماعتوں کے ساتھ جڑنا ضروری ہو گیا ہے۔ورنہ سرمایہ کی دلال سیاسی پارٹیوں کے لیڈر عوام کی زندگی کا سودا کرنے سے بھی باز نہیں آئیں گے ۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: