غریب امیر کا خدمت گزار

کامران عباس

جمعرات سے سوچ رہا ہوں کہ اس خبر پر کچھ لکھوں۔ پاکستانی اخبارات میں تواگلے دن اس خبر پر واویلا مچا لیکن شاید ہی کسی نیوز چینل نے اسے اہمیت دی ہو۔

یہ خبر نہیں شاید پاکستانی معاشرے کی سب سے بڑی حقیقت تھی۔
ہوا کچھ یوں کہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر سردار محمد خان یعقوب  ناصر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ’’ڈیوولوشن ‘‘میں جمعرات کو ایسے ریمارکس دیئے ۔ انہوں نے کہا کہ غریب امیروں کی  خدمت کے لئے ہی موجود ہیں جس پر کمیٹی کے ممبران نے شدید احتجاج کیا۔

sadar
اس اجلاس کی صدارت میر کبیر احمد محمد ساہی کر رہے تھے، انہوں نے متعلقہ وزیر شیخ آفتاب اور سیکریٹری کے نہ آنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ جب وزیر موصوف کو فون کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو وزیراعظم سے ملاقات میں مصروف ہیں۔
اس دوران پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج محمد نے گفتگو شروع کی اور پاکستان میں غریبوں کی حالت زار پر نوحہ پڑھا۔

انہوں نے کہا کہ اب تمام فیصلہ سازی صرف امیروں کو اور امیر کرنے کے لئے ہو رہی ہے۔انہوں نے کچھ یوں کہا کہ ’’ہم نے ہزاروں پاکستانیوں کو غیر ملکی کرنسی کمانے باہر بھیج دیا۔ وہ وہاں خون پسینہ بہا کر پیسے بھیجتے ہیں تو ملک چلتا ہے۔ اس سب کو قومی مفاد قرار دے دیا گیا۔ مجھے ڈر ہے کہ جلد ہی یہ ثابت ہو جائے گا کہ آف شور کمپنیاں بھی قومی مفاد میں بنی ہیں۔اس ملک کا غریب کبھی اپنے مفاد میں کوئی فیصلہ نہیں کر پائے گا۔‘‘
اس پر سردار صاحب بولے کہ سب امیر ہو جائیں گے تو گندم کون اگائے گا، مزدوری کون کرے گا؟ ’’یہ خدا کا نظام ہے۔ اس نے کچھ لوگوں کو امیر اور کچھ کو غریب بنایا۔ اس کے نظام میں مداخلت نہیں ہو سکتی۔‘‘
اس پر کمیٹی میں بحث شروع ہو گئی کہ طبقات تو انسان نے بنائے ہیں، پھر اسے خدائی کام کیوں قرار دیا جاتا ہے۔خدا نے تو سب کو برابر بنایا ہے۔ تاہم سردار صاحب کو کوئی سمجھا نہیں سکا۔ انہوں نے کہا کہ  چین میں ایک بار لوگوں کو برابر سمجھا گیا لیکن اس کے اچھے نتائج نہیں نکلے۔جن لوگوں کے پاس اچھی تعلیم نہیں، جن کے پاس پیسا نہیں، انہیں بیوروکریٹ کی زندگی گزارے کا حق بھی نہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ امریکا میں صدر بھی اپنی شاپنگ خود کرتا ہے لیکن اس پر سردار صاحب نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بھی برابری نہیں۔ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں لیکن سینیٹرز کو نہیں۔
اس بات پر بحث ختم ہوئی۔ اس پر وزیر موصوف کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ ان کی بے عزتی کی جا سکتی ہے لیکن ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی کیونکہ انہوں نے جو کہا وہ سچ ہی ہے۔

کیا پاکستانی معاشرے میں انسان کو کسی بھی سطح پر برابر سمجھنے کا رواج موجود ہے؟
کیابھارت میں دلتوں کے مسئلے پر ہونے والی آہ و بکا کرنے والو ں نے کبھی یہاں موجود اقلیتوں کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ بڑے سے بڑے واقعے کو بھرپور دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ایسے میں امیر غریب کے معاملے پر گفتگو صرف جلسے جلوسوں میں ہی ہوتی ہے۔ سینیٹر موصوف نے یقیناً پاکستانی معاشرے کی حقیقت کو ایوان میں پہنچایا ہے۔

آخر ایوان میں سچ بات سامنے آ ہی گئی کہ اشرافیہ کیسے سوچتی ہے؟

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: