بس اپنے ہی دکھ کی چادر اوڑھے کیا حاصل
در و گھر سے نکلو تو خبر ہو
شہر کا شہر لہو سے بھرا ہے
کہیں ٹکڑے ہیں لاشوں کے
کہیں ماں بےسدھ سی پڑی ہے
کہیں ننھی کھلی آنکھیں کہتی ہیں
کوئی میری ماں سے کہے
آکے مجھے اپنی جھولی میں سماں لے
کہی نظر پڑے تو وہ دیکھو
ایک بوڑھا!
پوچھو تو کہتا ہے’’میرا بیٹا یہاں تھا‘‘
سانولا سا تھا کیا دیکھا ہے تم نے
کہتے ہیں یہاں تو وحشت ہی وحشت برپا ہے
دھواں دھواں سا ہے
کوئی زور کا دھماکا ہوا تھا، اس دھماکے میں،
تمھارا بیٹا جو سانولا سا تھا
کہی اس نے رنگ تو نہیں بدل لیا
وہ تو ایک تھا
کہیں ٹکڑوں میں تو نہیں ڈھل گیا
کہتے ہیں دیکھو تم بھی کوئی چھ ،سات ٹکڑے اٹھالو، پھر جوڑو،شاید وہ مل جائے،
سانولا تو نہیں۔۔۔کوئی اور رنگ تو ضرور اوڑھا ہوگا، اور کہتے ہیں
جلدی کرو ٹکڑے اٹھاؤ
ایسا نہ ہو کہ کہیں ’’اک ایسی اور آواز سے یہ سب بھی چھن جائیں‘‘
بس ایسا نہ کرو
گھر سے نکلو
دیکھو تو کتنے وحشی درندے آن پہنچے ہیں!
تم اب تک اپنے ہی دکھ کی چادر اوڑھے ہو،
تمہارا غم تو اک شخص کا ہے
یہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں،
یہاں رنگ ہولی نہیں، رنگ لہو بہتا ہے
جو گھر سے نکلو گے تو حیراں حیراں پوچھو گے کہ کیا اب اس بستی میں انساں نہیں بستے!