دلتوں کا راج کوٹ ، حقیقی تنازع

مایا پرابہو(الجزیرہ)

راج کوٹ کے سول اسپتال کا وارڈ سخت ترین سیکیورٹی میں ہے۔ کوئی بھی شخص اس میں شناخت پریڈ اور چیکنگ کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔ اس وارڈ میں چار نوجوان زیر علاج ہیں۔ ان کے نام وشرام سرویاس،اس کا بھارئی رمیش، کزن اشوک اور بیچار ہیں۔ یہ چار نوجوان آج کل ایک بغاوت کے عمل بردار ہیں۔

سرویاس کا تعلق گجرات کے اونا ضلع سے ہے۔ اس علاقے میں دلت بڑی تعداد میں موجود ہیں جنہیں کبھی اچھوت کہا جاتا تھا۔ سرویاس کا خاندانی کام مذہبی لحاظ سے ناپاک ہے ۔ سرویاس اور اس کے گاؤں کے تمام لوگ مردہ جانوروں کی کھالیں اور ہڈیاں اکٹھی کرتے ہیں۔

بھارت کی یہ 12ارب ڈالر کی صنعت صرف مسلمانوں اور دلتوں کی سر پر چلتی ہے۔ گائے کی کھال اتارنا بھارت جیسے ملک میں انتہائی  قبیح فعل ہے۔ 11جولائی کو سرویاس اور ان کے خاندان کو اندازہ ہوا کہ آبائی پیشے کی وجہ سے وہ کتنے  غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔

یہ چاروں نوجوان سڑک پر ایک مردہ گائے کی کھال اتار کر اپنا معمول  کا کام سر انجام دے رہے تھے کہ ’’گائے رک شک ‘‘ وہاں پہنچ گئے اور ان پر گائے کو ذبح کرنے کا الزام لگایا۔ سرویاس نے انہیں سمجھنے کی کوشش کی کہ گائے اپنی موت مری لیکن گجرات میں ان انتہا پسندوں کی ریاستی پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ اس کے ذبح پر پابندی عائد ہے۔

cow

بس ہجوم اکٹھا ہوا اور انہیں کھمبے سے باندھ پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لوہے کے راڈ نے ان کی کئی ہڈیاں توڑ دیں۔اس واقعے کی ویڈیو فوٹیج آنے کے بعد ملک بھر میں دلتوں کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج شروع ہوا۔

دلتوں نے گائے کی کھالیں جلانا شروع کر دیں۔ صنعت کو نقصان پہنچا تو وہ بھی چیخ اٹھے اور مودی پر دباؤ بڑھا۔ اس احتجاج کی لہر میں ایک پولیس اہلکار مرا جبکہ کے درجنوں دلتوں نے سرکاری دفاتر کے سامنے خودکشی کی کوشش کی جن میں سے ایک کامیاب بھی ہو گیا۔

راج کوٹ کا اسپتال اب اس تحریک کا مرکز ہے۔ اس کے بعدریاستی وزرا اور راہول گاندھی تک سب تصاویر کھینچوانے ا سی اسپتال آئے۔ اس اسپتال میں 28سالہ منوج بھی موجود ہے۔ اس نے بھی دلتوں کے احتجاج کے دوران ’’فنائل پی ‘‘ کر خودکشی کی کوشش کی اور اب زیر علاج ہے۔

منوج کا کہنا ہےکہ ’’ہمیں بھارت میں  جانوروں کی طرح رکھا جا رہا ہے۔ جانور کو  بھی ایسے نہیں مارتے۔ ہم تو احتجاج کرنے نکلے لیکن پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا۔ 50 افراد کو پکڑ لیا۔ میں لاچار کیا کرتا۔ اب اس سے زیادہ کیا غصے کا اظہار کریں؟‘‘

cow 2

راج کوٹ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نےکچھ لوگوں کو پکڑا  اور پھر رہا کر دیا۔ درحقیقت ان کی پالیسی بس یہی ہے کہ مظاہرین اکٹھے نہ ہوں تاکہ کوئی بڑا مسئلہ کھڑا نہ ہو جائے۔تاہم منوج  یہ بات تسلیم نہیں کرتا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا لیکن پھر بھی حکومت ہمیں مسئلہ سمجھتی ہے۔ بھارت تو آزاد ہو گیا لیکن ہم اب بھی غلام ہیں۔

دلتوں کی کم آبادی کے باوجود بھی گجرات میں اتنے بڑے ہنگامے ہونا بہت بڑی تبدیلی ہے۔ سماجی تنظیموں کے مطابق گجرات میں دلتوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے رد عمل بھی خوف ناک ہے۔

اسی اسپتال میں مہیش نامی ایک 22سالہ نوجوان بھی زیر علاج ہے۔ اس نے بھی خود کشی کی کوشش کی تھی۔ مہیش کے والد کا کہنا ہے کہ ’’مجھےان نوجوانوں کی فکر ہے۔ ان کا مستقبل کیا ہو گا؟  ‘‘ وہ اپنے آبائی کام کی وجہ سے فکر مند ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں ان کے ذریعہ معاش پر ہی پابندی نہ لگ جائے۔

راج کوٹ اسپتال سے دور ایک گندی سی بستی میں چمڑے کی فیکٹریاں موجود ہیں۔ یہاں ایک علیحدہ دنیا آباد ہے۔ ان فیکٹریوں سے لاکھوں لو گ وابستہ ہیں ۔ ایک 40سالہ کاریگر نریندر نے بتایا کہ  کھالیں اتارنا بہت مشکل کام ہے اور اب تو ہمیں اس کے لئے مارا جا رہا ہے۔ اگر میری اولاد کو کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گا؟

یہاں موجود بیشتر فیکٹریاں مسلمانوں کی ہیں۔ ان میں سے کچھ دلتوں کے پاس بھی ہیں لیکن زیادہ ترلیز پر ہیں۔ بہت کم دلت ایسے ہیں جن کی اپنی فیکٹریاں موجود ہوں۔ اونا واقعے کی خبر نے تمام دلتوں کو ہلاک کر رکھ دیا لیکن اس سب میں سوشل میڈیا نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔

cow 3

عام طور پر دلتوں کو ٹیکنالوجی سے دور ذات سمجھا جاتا ہے لیکن اگر آپ ان کے پاس جائیں تو معلوم ہو گا کہ کمیونٹی کا سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت گہرا رابطہ ہے۔ نوجوانوں پر تشدد کی ویڈیو منظر عام پر آتے ہی نریندر نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور پھر احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔

عام طور پر دلتوں کا خیال ہے کہ وہ شہروں میں محفوظ ہیں لیکن راجکوٹ جیسی جگہ پر اس واقعے نے ثابت کر دیا ہے کہ اب بھارت میں کہیں بھی دلت محفوظ نہیں۔

نریندر کے مطابق جب بھی وہ مرے ہوئے جانور کا کوئی حصہ کہیں لے کرآتے جاتے ہیں تو ہر جگہ ان سے سوالات کیے جاتے ہیں کہ گائے کیسے مری، کہاں تھی، تمھارے تک کیسے پہنچی؟ جب نریندر سے سوال کیا گیا کہ یہ سوال پوچھنے والے لوگ کون ہیں تو اس نے کئی انتہا پسند مذہبی تنظیموں کا نام لیا۔ تاہم وہ خود بھی صحیح طور پر ان لوگوں کو نہیں جانتا۔

راج کوٹ کے  دلتوں کا کہنا ہے کہ پولیس بھی ان لوگوں کے آگے بے بس ہے۔ ادھر پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ  یہ ’’گائے رک شک ‘‘ گروہ ہے جسے حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔

ادھر راج کوٹ میں غیر دلت لوگ ان سے بہت تنگ ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ دلتوں کے کام کی وجہ سے شہر میں گند بڑھ گیا ہے۔ شہر میں اس کام کی وجہ سے  ہر وقت بو رہتی ہے۔ دلتوں کے اس کام پر فوری طور پر پابندی لگانی چاہیے تاکہ ماحول کا تحفظ کیا جا سکے۔ ادھر دلتوں کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد انہیں زمینوں کی تقسیم میں 30لاکھ ایکڑ زمین گجرات میں ملی ۔ تاہم ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آیا۔ راج کوٹ میں بھی انہیں بس اس کام کے لئے یہ بستی ہی  دی گئی اور اب 4نسلوں بعد یہاں سے بھگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

نریندر کے نوجوان بیٹے نے اس حوالے سے ایک مختلف رائے دی۔ اس کے مطابق پہلے یہ ہمارے کام  پر انگلی نہیں اٹھاتے تھے لیکن پھر ان کی آبادی پھیلی اور یہ شہر بن گیا۔ ہم اسی جگہ رہے اور یہ ہمارے اردگرد پھیل گئے، اب ہم ان کے درمیان ہیں۔ بس یہ ہمیں یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بدبو اور ہم سے دور رہ سکیں۔ اس زمین پر اچھی ہاؤسنگ سوسائٹی بنے اور ہم  کہیں اور جا کر اپنی بستی بنائیں کیونکہ اب یہاں زمین کا ریٹ اچھا ہے اور ہاؤسنگ سوسائٹی بھی اچھی بنے گی۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: