پاپولر سیاست، روبوٹ اور معاشی انصاف

زیویر سلوانا (الجزیرہ، سابق رکن یورپی پارلیمنٹ)

مغربی جمہوریت اور طاقتور لیڈر پوری قوت سے دنیا کو یہ سبق پڑھا رہے ہیں کہ ان کے مسائل کا حل صرف اور صرف  عالمگریت میں ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں جن ممالک میں شرح نمو کم ہوئی یا پھر اسقاط کا شکار ہوئی، وہاں بھی لیڈروں کا خیال ہے کہ آزاد تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری سے ہی مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ اسی کی مدد سے ترقی ممکن ہے۔ اس بحث میں بہت سے سقم موجود ہیں، اس پر بہت غور کی ضرورت ہے۔

صرف معاشی ابتری عالمگیریت کے خلاف تحریک کو جنم نہیں دیتی، جن ممالک میں بے روزگاری کم اور پیسے کی ریل پیل ہے، وہاں بھی ایسے جذبات بڑھ رہے ہیں۔ تاہم یہ جذبات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ پاپولر (معروف) سیاست کرنے  والے سیاست دان لوگوں سے بڑھ چڑھ کر جھوٹ بولتے ہیں، اس کے نتیجے میں عوام بے زار ہو رہی ہے۔

اگر معاشی مسائل حل نہیں ہوتے تو ان سیاست دانوں کی طاقت مزید بڑھتی ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرہ مزید پسماندگی کی شکار ہوتا ہے اور لوگوں میں عدم برداشت بڑھتی جاتی ہے۔ جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی سیاست میں کوئی کردار نہیں تھ ۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنے بل بوتے پر سیاسی سطح پر کچھ بھی کرنے کے اہل نہیں ہیں۔

ٹرمپ جیسے لوگوں کی مقبولیت کی صرف ایک ہی وجہ ہے۔ سیاست دانوں نے عالمگیریت کے نام پر فائدے اٹھائے اور عوام کو بھول گئے۔ عوام کا غصہ اب کہیں نہ کہیں تو نکلنا تھا، اس وجہ سے ٹرمپ مقبول ہو گیا۔

اس بات میں شک نہیں کہ عالمگیریت نے ریاستوں کے درمیان معاشی عدم مساوات کم  کی ہے ، (گو یہ بھی بحث طلب ہے ) لیکن اس کی وجہ سے ممالک کے اندر معاشی مساوات انتہائی تیزی سے ختم ہوئی ہے۔ عالمگیریت کا سب سے زیادہ فائدہ ایشیا کے متوسط اور امیر طبقے کو ہوا جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ کمانے والے ایک فیصد افراد کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں چلی گئیں۔

امریکا میں عدم مساوات کا اعشاریہ 1990 سے 2013 کے درمیان پانچ پوائنٹس بڑھا۔ چین، بھارت اور یورپی ممالک میں بھی یہ شرح بڑھی لیکن اس کی رفتار امریکا سے سست رہی۔ اس عدم مساوات کے باوجود عالمگیریت سے دنیا کے غریب ممالک کو فائدہ پہنچا ہے۔ معاشی آزادی نے دنیا کے کروڑوں افراد کو غریبی کی دلدل سے نکالا ہے۔ اس وجہ سے ایک عظیم ماہر اقتصادیات نے لکھا کہ صنعتی انقلاب کے بعد عالمگیریت کی وجہ سے دنیا  کی آمدنی  میں سب سے بڑی تبدیلی آئی۔

تاہم بہت سے ترقی یافتہ ممالک کے لئے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ممالک دنیا سے غربت کے خاتمے کے خلاف نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر صرف چین ہی ترقی کرے اور ان کے ممالک میں آمدنی اسقاط کا شکار رہے تو پھر یہ عالمگیریت انہیں قبول نہیں ہے۔ اگر ان کے معاشروں میں صرف امیر ہی امیر ہوں گے تو بغاوت جنم لے گی۔ معروف سیاست میں اشرافیہ کا ہی ریاست پر اصل کنٹرول ہوتا ہے کیونکہ اس کہ وجہ سے وہ امیر سے امیر تر ہوتے ہیں اور ریاست کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

تاہم پاپولسٹ سیاست دان جو دنیا بنانا چاہتے ہیں اس کا وجود ممکن نہیں۔ موجود حالات میں اپنی معیشت کے لئے دنیا کے دروازے بند کرنا  صرف تباہی ہے۔ ان حالات میں پاپولر سیاست تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یہ سیاست دان مدافعتی پالیسیوں کے نام پر ایسے نعرے لگا رہے ہیں  جن کی وجہ سے عوام کے حقیقی مسائل حل نہیں ہوں گے۔

ایک حکومت کا کام ملک میں معاشی انصاف قائم کرنا ہے۔ ایسے حالات میں قائدین کو عالمگیریت کے خلاف بات نہیں کرنا چاہیے بلکہ انہیں اس میں اصلاح کر کے نئے راستے نکالنے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ انہیں لوگوں کو اس کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

معاشی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لئے جارحانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ قائدین کو ایسے حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امیر ممالک کے لوگ بھی عالمگیریت کے فوائد حاصل کر سکیں۔ اس کے لئے لوگوں کی تخلیقی صلاحیت ابھارنے کی ضرورت ہے لیکن شاید ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہ لیڈر خود بھی تو اس قابل نہیں ہیں۔

تمام ریاستوں کو بھی باہمی روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس اور بے روزگاری کے حوالے سے  اقوام عالم نے آج تک کوئی بھی مشترکہ لائحہ عمل نہیں اپنایا۔ یہ تمام موضوعات چین کے جی 20 اجلاس کا حصہ ہوں گے لیکن صرف باتوں سے بات نہیں بنیں گی۔ اب عملی اقدامات کا وقت آ گیا ہے۔

اب روبوٹس اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا دور ہے اور ایسے میں اگر ہم نے فوری کچھ نہیں کیا تو شاید اس مسئلے پر قابو پانا ناممکن ہو جائے گا۔ ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ معاشرے کی آٹومائزیشن سے کالج ڈگری رکھنے والے افراد کو سب سے زیادہ نقصان ہو گا جبکہ یہی لوگ معاشرے  میں سب سے زیادہ ناراض گروہ ہیں۔

اگلے سال یورپی ممالک  اور امریکا  میں انتخابات ہیں، اگر ٹرمپ جیسے لوگ جیت گئے تو پھر ممکن ہے کہ ہم آج تک  کی تمام کامیابیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ایسے حالات میں قومی قیادت کو سامنے آنا ہو گا تاکہ لوگوں کی اصلاح کی جا سکے۔ پاپولر سیاست کی جیت سے ثابت ہو جائے گا کہ سیاستدانوں نے قوم کو مایوس کیا ہے۔ امید ہے کہ بریگسٹ نے ہم سب کو ہلایا ہو گا۔ ناممکن ہو سکتا ہے۔ مگر قومی قائدین کو فرض ہے کہ وہ کھل کر سامنے آئیں اور ان کا مقابلہ کریں۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: