ماہرین فلکیات نے زمین کے انتہائی قریب موجود ستارے پروکسیما سینتوری کے گرد گھومتا ایک سیارہ دریافت کیا ہے۔ اس نئی زمین کو پروکسیما بی کا نام دیا گیا ہے جو اپنے ستارے کے گرد ایک چکر 11 دن میں مکمل کرتی ہے اور اس کا درجہ حرارت سطح پر پانی کی مائع حالت میں موجودگی کے لیے نہایت مناسب ہے۔ چٹانوں سے بھری یہ دنیا ہماری زمین سے تھوڑی وزنی ضرور ہے لیکن یہ ہمارے سب سے قریب ترین موجود سیارہ ہے جو اپنے ستارے کے گرد چکر کاٹتا ہے۔ اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ نظام شمسی سے باہر یہ سب سے قریبی مسکن ہے جہاں زندگی کا وجود ممکن ہوسکتا ہے۔
ہمارے نظام شمسی سے صرف چار نوری برسوں کی دوری پر ایک ننھا سرخ ستارہ موجود ہے جسے پروکسیما سینتوری کا نام دیا گیا ہے۔ سورج کے بعد یہ زمین کے قریب ترین موجود ستارہ ہے۔ ستاروں کی سینتورس جھرمٹ میں موجود یہ ستارہ اتنا مدہم ہے کہ انسانی آنکھ اسے خصوصی آلات کی مدد کے بغیر نہیں دیکھ سکتی اور اس کے نزدیک الفا سینتوری اے بی کے نام سے زیادہ روشن ستاروں کا ایک جوڑا بھی موجود ہے۔
سال 2016 کے پہلے نصف حصے میں چلی کے صحرا میں یورپین سدرن آبزرویٹری کی 3.6 میٹر لا سیلا ٹیلی سکوپ پر ہائی ایکوریسی ریڈیل ولاسٹی پلینٹ سرچر (ایچ اے آر پی ایس) سپیکٹوگراف کی مدد سے پروکسیما سینتوری کا باقاعدگی سے مشاہدہ کیا جاتا رہا۔ اسی دوران دنیا کے دوسرے حصوں میں موجود دوربینوں کی مدد سے بھی اس ستارے کی نگرانی کی جاتی رہی۔
یہ کوئین میری یونیورسٹی لندن کے گلیئیم اینگلادا ایسوڈی کی سربراہی میں پیل ریڈ ڈاٹ مہم تھی جس نے ستارے کے آگے اور پیچھے ننھی سی ڈگمگاہٹ دیکھی جو ممکنہ طور پر مدار میں گھومتے سیارے کی کشش ثقل کے کھینچاؤ کے باعث تھی۔
اس موضوع میں عوامی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے پیل ریڈ ڈاٹ نے جنوری سے اپریل تک اپنی مہم میں ہونے والی پیش رفت کو ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ ان رپورٹس کے ساتھ دنیا بھر میں موجود ماہرین کے آرٹیکلز بھی تھے۔
گلیئیم اینگلادا ایسوڈی اس منفرد تحقیق کے پس منظر کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ” سیارے کی موجودگی کے ابتدائی شواہد 2013 میں ملے تاہم یہ دریافتیں کچھ زیادہ قائل کرنے والی نہیں تھیں۔ تب سے ہم ای ایس او اور دیگر اداروں کی مدد سے مزید مشاہدات میں لگے رہے۔ حالیہ پیل ریڈ ڈاٹ مہم دو سال منصوبہ سازی کے عمل سے گزری۔”
پیل ریڈ ڈاٹ کے مواد کو جب ای ایس او اور دیگر رصد گاہوں کے پہلے سے موجود مشاہدوں کے ساتھ ملایا گیا تو ایک انتہائی حیران کرنے والے نتیجے کا اشارہ ملا۔ بعض اوقات پروکیسما سینتوری زمین کی طرف 5 کلومیٹر کی رفتار سے بڑھتا ہے، جو انسان کے عام چلنے کی رفتار ہے، اور بعض اوقات اسی رفتار سے پیچھے ہٹتا ہے۔ رفتار تبدیل کرنے کا یہ متواتر عمل 11.2 دن کے حساب سے خود کو دہراتا ہے۔ مزید محتاط مشاہدے سے ایک سیارے کی موجودگی کے شواہد ملے جو ماس میں زمین سے 1.3 گنا زیادہ ہے اور پروکسیما سینتوری سے 70 لاکھ کلومیٹر کی دوری پر مدار میں گھوم رہا ہے۔ جو زمین اور سورج کے فاصلے کا 5 فیصد بنتا ہے۔
گلیئیم اینگلادا ایسوڈی بتاتے ہیں: “میں پیل ریڈ ڈاٹ کی 60 راتوں کی مہم کے دوران ہر روز ملنے والے اشاروں کے تسلسل کو دیکھتا تھا۔ پہلے 10 امید افزا تھے۔ پہلے 20 امیدوں کے مطابق تواتر سے تھے اور 30 دنوں پر نتائج کافی فیصلہ کن تھے جس پر ہم نے اپنا مقالہ لکھنا شروع کیا۔”
پروکسیما سینتوری جیسے سرخ بونے متحرک ستارے ہیں اور جو اپنے اطوار میں اس انداز سے بدلاؤ لاسکتے ہیں کہ کسی سیارے کی موجودگی کی نقالی کرسکیں۔ اس امکان کو رد کرنے کی خاطر ٹیم نے ستارے کی روشنی میں تبدیلی کا بھی مشاہدہ کیا۔ جب ستارہ بھڑکیلا ہوتا تھا تب کے ریڈیل ولاسٹی ڈیٹا کو حتمی تجزیے سے خارج کردیا گیا۔
اگرچہ پروکسیما بی کا اپنے ستارے سے فاصلہ نظام شمسی میں عطارد کے سورج سے فاصلے سے کہیں زیادہ کم ہے تاہم پروکیسما بی کا ستارہ سورج کی نسبت کم روشن ہے۔ اس کے نتیجے میں پروکسیما بی اپنے ستارے سے اتنے فاصلے پر موجود ہے جہاں زندگی کا وجود ممکن ہوسکے۔ اور اس ستارے کی سطح کا درجہ حرارت اندازے کے طور پر اتنا ہے جہاں پانی مائع شکل میں وجود رکھ سکے۔ تاہم اس بات کا امکان ہے کہ پروکسیما بی کی سطح اپنے سیارے کی الٹراوائلٹ اور ایکس رے شعاعوں سے زیادہ متاثر ہے۔ ان کا اثر اس سے کہیں زیادہ ہے جو زمین پر سورج کی شعاعوں کا ہوتا ہے۔
دو الگ الگ مقالوں میں پروکسیما بی پر زندگی کے وجود اور اس کے ماحول پر بحث کی گئی ہے۔ ان کے مطابق اس سیارے پر پانی کی مائع حالت میں موجودگی کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا تاہم یہ سیارے کے زیادہ روشن حصوں میں موجود ہوگا۔ یعنی سیارے کا وہ کرہ جو ستارے کے سامنے ہو یا ٹروپیکل بیلٹ میں۔ پروکسیما بی کی گردش، اس کے ستارے کی تابکاری اور اس کے وجود کی تاریخ اس کو زمین سے انتہائی مختلف سیارہ بناتے ہیں۔ اور اس بات کا بھی امکان نہیں کہ پروکسیما بی پر موسم پائے جاتے ہوں۔
یہ دریافت درحقیقت مستقبل میں مزید وسیع پیمانے پر مشاہدوں کا آغاز ہوگا جن میں موجودہ آلات کے ساتھ یورپین ایکسٹریملی لارج ٹیلی سکوپ جیسے جدید آلات کا بھی استعمال کیا جائے گا۔ پروکیسما بی اب کائنات میں زندگی کے وجود کی تلاش کا مرکزی ہدف ہوگا۔ دراصل الفا سینتوری سسٹم انسان کی جانب سے کسی دوسرے نظام شمسی کے سفر پر جانے کا بھی پہلا ہدف ہوگا۔
گلیئیم اینگلادا ایسوڈی کہتے ہیں، ” نظام شمسی سے باہر دوسرے ستاروں کے گرد گھومتے کئی سیارے دریافت کئے جاچکے ہیں اور مزید کئی دریافت بھی کئے جائیں گے لیکن زمین سے ملتے جلتے سیارے کی تلاش اور اس میں کامیابی زندگی کا ایک یادگار تجربہ ہوگا۔ بہت سے لوگوں کی داستانیں اور کوششیں اس دریافت پر آپس میں ملتی ہیں۔ اس کے نتائج ان سب کے لیے خراج تحسین ہیں۔ پروکسیما بی پر زندگی کی تلاش اب اگلی منزل ہے۔۔”
یورپین سدرن آبزرویٹری کی ویب سائٹ پر پڑھیں