کراچی آپریشن کی چابیاں

پہلا حصہ

کراچی آپریشن سے چند سال پہلے چار اعلیٰ ترین سیکیورٹی آفیسرز جن میں ایک انٹیلی جنس چیف، ایک سروس چیف اور ایک سینئر آفیسر جو کہ کراچی میں قانون کی عملداری کا انچارج تھا، ایک کمرے میں جمع تھے۔ ان میں ایک تھری سٹار جنرل بھی تھا لیکن وہ اتنا ہی بے بس تھا جتنا کہ زیادہ تر کور کمانڈرز ہوتے ہیں۔ ان کا موضوع کراچی تھا۔ ان سب میں اس بات پر اتفاق تھا کہ کراچی کے نواحی علاقوں سے طالبان سے منسلک دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے لیکن اس دوران پرانی بحث بھی چل رہی تھی: کراچی کے طاقتور ’سیاسی ملیشیاز‘ سے کیسے نمٹا جائے اور شہر کی کمزور اور سیاست زدہ پولیس کو کیسے بہتر بنایا جائے؟

’’You have the keys to the kingdom, Sir‘‘

یعنی آپ کے پاس ریاست کی چابیاں ہیں سر۔ کمرے میں موجود سب سے جونیئر اور کراچی کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے انچارج نے انٹیلی جنس چیف کو کہا۔ ان کا اشارہ عمران فاروق قتل کیس سے منسلک دو افراد کی جانب تھا جن کو چند برس پہلے پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں نے گرفتار کیا تھا۔ ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن میں قتل کیا گیا تھا اور ان کے مشتبہ قاتلوں کو کراچی ایئرپورٹ سے برطانوی ایجنسیوں کی نشاندہی پر گرفتار کیا گیا تھا۔

’’ Let’s hold on to those keys, general‘‘

کمرے میں موجود سب سے سینئر افسر کا جواب آیا جو کہ سروس چیف تھے، ایک چین سموکر جو ہر معاملے پر ضرورت سے زیادہ غور کرنے کا رجحان رکھتے تھے۔ امریکی ان کی شطرنجی چالوں کو ’’ sitzkrieg‘‘ کا نام دیتے تھے، یعنی ایسی جنگی حکمت عملی جس میں جارحیت کا شائبہ تک نہ ملے۔

karachi kati pahari

انٹیلی جنس چیف جو خود بھی کراچی کے معاملات کی نگرانی کرچکے تھے اور جن کے پاس دونوں مشتبہ افراد تھے، اپنے جونیئر آفیسر کو جانچنے میں لگ گئے جو اس وقت کراچی میں سب سے بہتر پوزیشن میں تھا۔

’’ Well, Sir. The keys are yours‘‘

جونیئر ترین جنرل نے تسلیم کیا لیکن ساتھ ہی وارننگ بھی دی کہ ’’امید کریں کہ یہ چابیاں اس وقت تک زنگ آلود نہ ہو جائیں جب آپ انہیں استعمال کرنا چاہیں۔

اور اس طرح کراچی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد عام انتخابات ہوئے۔ کراچی کس کا، ایم کیو ایم کا۔۔ کے نعرے غلط ثابت نہ ہوئے لیکن کیمروں کی آنکھ میں قید دھاندلی کے ثبوتوں پر تحریک انصاف نے اس کو چیلنج ضرور کیا۔ اس کے فوری بعد تحریک انصاف کی رہنما زہرا شاہد حسین کو ان کے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا۔ عمران خان اور ان کی جماعت نے اس کا الزام ایم کیو ایم پر عائد کیا۔

19 مئی کو ایم کیو ایم نازک صورتحال سے گزری جس کو فوجی حلقوں میں اندرونی بغاوت سے تعبیر کیا گیا۔ الطاف حسین اپنے کمانڈرز پر برس پڑے، ان پر قیادت کو ناکام بنانے کا الزام دھرا گیا اور رابطہ کمیٹی میں تبدیلیاں کر دی گئیں۔ الطاف حسین کی تقریر کے ساتھ ہی کارکن منتخب نمائندوں پر ٹوٹ پڑے، ان پر تشدد کیا گیا اور انہیں بند کر دیا گیا۔

آنے والے دنوں میں تمام صوبوں میں نئی سویلین حکومتیں قائم ہوئیں اور کراچی کے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کا سیاسی میدان مزید سکڑ گیا۔ شہری سندھ میں برداشت پر یقین رکھنے والی ایم کیو ایم کو دیکھا گیا جبکہ ٹویٹر اور ٹیلی ویژن کے پرائم ٹائم میں ستار، رضوی اور سبزواری انتہاپسندی کے خلاف لڑتے اور قومی وحدت کا پرچار کرتے نظر آئے۔ لیکن یہ سب ان کی ذاتی حیثیت تک تھا۔

اصل ایم کیو ایم گلی محلوں کی متحدہ تھی، ایک انقلابی متحدہ، متحدہ جس کو کاروبار سے غرض تھا۔ متحدہ جو حقیقیت میں کراچی پر حکمرانی کرتی تھی۔ سیکٹر انچارجز اور یونٹ لیڈرز جو صرف اور صرف الطاف حسین پر یقین رکھتے اور انہیں کو جوابدہ تھے۔ ریئس مما، سلیم انقلابی، حامد پیا، سمیع ایرانی۔۔ فلمی کرداروں جیسے یہ افراد حقیقت میں موجود تھے۔ یہ ایم کیو ایم ہمیشہ کی طرح ہر وہ کام کرتی تھی جو ضروری ہو یا جو اس کراچی پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے کرنا ہو۔

اس لئے جیسے ہی اقتدار کی منتقلی ہوئی، الیکشن کے بعد اقتدار پر قبضے کی جنگ شدید ہوگئی اور کراچی میں بڑھتی ٹارگٹ کلنگ کا نتیجہ کل جماعتی کانفرنس کی صورت میں سامنے آیا۔ ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز رضوان اختر جو اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، حتیٰ کہ جب یو ایس وار کالج میں ان کے امریکی میزبان نے غلط الفاظ استعمال کئے تو سوتے میں ان کی بڑبڑاہٹ ان کی اہلیہ کو تنگ کرتی رہی۔ انہیں 1990ء کی طرز کے ٹارگٹڈ آپریشن کے انچارج بنا دیا گیا۔ اس آپریشن کا آغاز تو ہوا لیکن انجام ابھی تک نظر نہیں آتا۔

Gen Rizwan Akhtar

 بہت زیادہ کھلاڑی، بہت بڑا میدان لیکن کم وسائل سے جلد ہی جنرل رضوان اختر کو اندازہ ہوگیا کہ کراچی کو ہر طرف سے جیتنا ہوگیا، وردی اور سیاست، غرض ہر طرف سے۔ اسی لئے انہوں نے ملک کے سب سے بڑے شہر کے لئے ایک منصوبہ بنایا اور اس میں تمام سیکیورٹی اداروں اور سیاستدانوں کو شامل کرلیا۔ یہ آسان نہیں تھا لیکن رضوان اختر نے اس کے لئے بھرپور کوشش کی۔

جو بھی قانون سے کھیلے گا اس کو نشانہ بنایا جائے گا لیکن پہلے سیاسی سرپرستی کے بغیر جرائم کرنے والے ’’فری لانسرز‘‘ اور طالبان سے منسلک ’’ٹینگوز‘‘ کو ٹارگٹ کیا گیا۔ سیاسی پشت پناہی رکھنے والوں کے گرد نہ صرف طاقت کے ذریعے گھیرا تنگ کیا گیا بلکہ سیاسی دباؤ بھی ڈالا گیا۔

رضوان اختر نے شروعات کے لئے مکمل طور پر نو گو ایریاز کا انتخاب کیا۔ منگھو پیر، کنواری کالونی اور کٹی پہاڑی جیسے علاقوں میں وزیرستان طرز کے آپریشنز کئے گئے، پٹرولنگ کے ساتھ کالعدم ٹی ٹی پی کے سپلنٹر گروپس کو چھاپوں اور مقابلوں میں ختم کیا جانے لگا۔ آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر رینجرز نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کئے اور کئی دہشت گردوں کو کونے کھدروں سے ڈھونڈ نکالا اور ان کا بارودی مواد ناکارہ بنایا گیا۔

اسی طرح سے لیاری کے پسماندہ علاقوں کو بھی کافی حد تک صاف کرلیا گیا کیونکہ یہاں بھی سیاسی تحفظ رکھنے والے گینگ بہت زیادہ شورش پھیلانا شروع ہوگئے تھے، حتیٰ کہ یہ حدت بلاول ہاؤس تک بھی پہنچنے لگی تھی۔ اس طرح یہ آپریشن کام کرنے لگا۔ رضوان اختر، شمالی وزیرستان کے بریگیڈیئر، جنوبی وزیرستان کے فارمیشن کمانڈر، صومالیہ کے جنگجو اور اٹلی میں جنگی قوانین کے طالبعلم، اپنی صلاحیتوں کو کراچی کے نواح میں بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے تھے۔

lyari karachi

لیکن کراچی کی سب سے بڑی اور دوسری بڑی سیاسی جماعتوں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے عسکری ونگ سے منسلک افراد اور دیگر جماعتوں سے منسلک مجرموں کے لئے خصوصی پروگرام چاہیے تھا۔ گورنر ہاؤس کو اعتماد میں لے کر بڑے آپریشنز کئے گئے، تلاش اور گھیراؤ کی مہم چلائی گئیں جس میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور ہائی پروفائل افراد کو حراست میں لیا گیا۔ جب کبھی وزیراعلیٰ دلچسپی کا مظاہرہ کرتے انہیں بھی بریفنگ دی جاتی لیکن رضوان اختر پروٹوکول کو تسلیم کرنے والے افسر تھے۔ اگرچہ گورنر عشرت العباد ایم کیو ایم کے جھنڈے تلے عہدے پر پہنچے تھے لیکن سیکیورٹی ایجنسیاں یہ سمجھتی تھیں کہ اگر ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا تو بھی ان سے بات ضرور کی جاسکتی ہے۔

انہیں داستانوں میں رضوان اختر کراچی کے لئے بہت کچھ کر رہے تھے۔ وہ ایک

آرگنائزر تھے جنہوں نے سکینڈلز میں گھری اور سست رینجرز کو چھوٹی اور کمانڈو طرز کی برق رفتار فورس میں بدلا، اور جوانوں کو بہتر تربیت اور سازو سامان فراہم کیا۔

ایک پراسیکیوٹر کے طور پر انہوں نے عدالتوں اور سپاہیوں کے ساتھ مل کر یقینی بنایا کہ پکڑے گئے مجرموں کو زیادہ سے زیادہ سزا ہو۔

ایکٹوسٹ کے طور پر رضوان اختر مقامی صنعتکاروں سے ملے، کمیونٹی ٹاسک فورس بنائیں۔ فنڈز اکٹھے کرکے نواحی اور صنعتی علاقوں کی سیکیورٹی کا بندوبست کیا تاکہ وہ صرف رینجرز پر انحصار نہ کریں۔ جب لاپتہ افراد کی مہم ٹارگٹڈ آپریشن میں رکاوٹ بننے لگی تو انہوں نے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر تحفظات دور کرنے کے لئے کمیٹی بنوائی۔

اور ایک دوست کے طور پر وہ کراچی پولیس اور انتظامیہ میں سیاسی بھرتیوں کے سامنے ڈٹ گئے چاہے وہ اچھی ہوں یا بری۔

لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رضوان اختر نے مواقع ضائع بھی کئے۔ انہوں نے ٹپیوں اور شکیبوں کے ساتھ عوامی اجتماعات میں ہاتھ نہ ملا کر انہیں ناراض کرلیا۔ یہ افواہیں بھی ہیں کہ الطاف حسین مسلسل کئی دن تک انہیں ٹیلی فون کرتے رہے لیکن رضوان اختر نے ان کا ٹیلی فون نہیں سنا۔ وزیراعلیٰ ہاؤس کے اجلاسوں میں جب کوئی بات بنتی نظر نہ آتی تو رضوان اختر خود کو خاموش نہ رکھ پاتے۔

جنرل رضوان اختر ان اجلاسوں میں موجود اپنے جاسوس کا خوب مذاق اڑاتے تاکہ وہ اندر کی باتیں حاصل کرسکیں، انہوں نے جاسوسوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ بنائے جنہیں وہ با آسانی کنٹرول کرسکتے تھے۔ اس طرح انہوں نے فوج کے سگنل انٹیلی جنس یونٹ کے ساتھ مل کر ٹیکنیکل ایڈوانٹیج کے ساتھ پولیس کی طرز کا انسانی انٹیلی جنس نظام بھی قائم کرلیا۔

بعض اوقات وہ رینجرز کی جانب سے مارے گئے افراد یا سزا پانے والے مجرموں کا کریڈٹ پولیس کو لینے دیتے، کبھی وہ پولیس میں سابق فوجیوں کی بھرتیوں کے لئے فنڈز دلواتے۔ نجی محفلوں میں وہ تسلیم کرتے کہ کراچی کی لڑائی بہت سخت ہے، شمالی یا جنوبی وزیرستان کی جنگوں سے بھی کہیں زیادہ مشکل۔ عوام میں وہ یہ دعائیں کرتے نظر آتے کہ رینجرز کب سرحدوں پر واپس جائے گی۔

نیم فوجی فورس کے سربراہ کا خفیہ ہتھیار نہ تو اس کے اپنے لوگ تھے جنہیں انہوں نے برق رفتار اور کمانڈوز کی طرح چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بانٹا اور نہ ہی فیلڈ سیکیورٹی اپریٹس جن سے رینجرز کا ملٹری انٹیلی جنس پر انحصار ختم ہوگیا۔ بلکہ جنرل رضوان اختر نے کراچی پولیس پر جوا کھیلا، بہت بڑا جوا۔ ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات کی زیرقیادت ایک بڑی فورس پر۔

shahid hayat

2013 اور 2014 میں جنرل رضوان اختر اور شاہد حیات نے ایک بہترین پارٹنرشپ قائم کی۔ دونوں بہت مختلف افراد تھے لیکن ان کے اہداف مشترکہ تھے۔ رینجرز کراچی کے نو گو ایریاز میں داخل ہوگئی۔ رضوان اختر اپنے جوانوں اور افسروں کے ساتھ ٹیکسٹ میسجز پر رابطے میں رہتے جس سے جوانوں کے جذبات ٹھنڈے رکھنے میں مدد ملتی اور 2011 کے سرفراز قتل کیس جیسے سکینڈل سے بچا جاتا۔

انہوں نے رینجرز کے کمزور ڈھانچے کو انتہائی مضبوط کیا اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سٹرکچر کو مرکزیت میں بدل دیا جس کے بعد تمام آپریشنز ان کی اجازت سے ہوتے۔ دنیا کے پانچویں بڑے شہر میں اگر کوئی بھی چھاپا مارا جانا ہوتا یا کوئی بھی بڑی گرفتاری ہونی ہوتی تو جنرل رضوان اختر اپنے ونگ کمانڈرز کو اس کی اجازت دیتے۔ اس نظام کا مقصد آپریشن میں شفافیت پیدا کرنا تھا تاکہ ان کے سیاسی باسز اعتراض نہ کرسکیں۔ جنرل رضوان اختر کو گورنر یا وزیراعلیٰ ہاؤس میں میٹنگ کے لئے خالی ہاتھ جانا پسند نہیں تھا، ان کے ساتھ ایک لیدر بیگ ہمیشہ موجود ہوتا جس میں ڈیٹا، تصاویر اور چارٹس موجود ہوتے۔ جنرل رضوان اختر کو ڈائری میں نوٹس لینے کی اتنی عادت تھی کہ انہیں تین مختلف رنگ کے قلم استعمال کرنا پڑتے تاکہ وہ اہم نکات پر جلدی پہنچ سکیں۔

جنرل رضوان اختر کے بیرکس کے ساتھ، عیدگاہ کے مقابل پولیس ہیڈکوارٹرز میں بھی نئے سربراہ کے نیچے تبدیلیوں کا عمل جاری تھا۔ لیکن شاہد حیات مختلف نوعیت کے سپاہی تھے۔ انسپکٹر جنرلز، ان کے باسز آتے اور چلے جاتے (تین سال میں سندھ کے پانچ آئی جی تبدیل ہوئے) لیکن جب تک وہ ایڈیشنل آئی جی رہے کراچی پولیس میں تبدیلی محسوس کی گئی۔ شاہد حیات کو اچھی زندگی، اچھے کھانے میں دلچسپی تھی لیکن وہ رات گئے تک تنازعات طے کرنے کے لئے دفتر میں جرگہ لگائے رکھتے۔ ابتدائی طور پر وہ رینجرز کو انٹیلی جنس فراہم کرتے اور جنرل رضوان اختر پولیس کو فورس دیتے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: