یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج پاکستان کے ہر شہری کی زبان پر زد عام ہے مگر اس کاجواب ایم کیو ایم کے رہنماؤں سمیت کسی کو معلوم نہیں۔
ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار نے اپنی پریس کانفرنس میں گزشتہ روز کے واقعے سے لاتعلقی کا اعلان تو کردیا مگر یہ نہیں بتایا کہ کیا وہ الطاف حسین کو بھی چھوڑ رہے ہیں یا نہیں۔
فاروق ستار نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اب ایم کیو ایم سے متعلق تمام فیصلے پاکستان میں ہوں گے مگر ان کی پریس کانفرنس کرنے اور لاتعلقی کا فیصلہ بھی پاکستان رابطہ کمیٹی اور لندن رابطہ کمیٹی کے مشترکہ اجلاس میں ہوا۔
اس کے بعد بھی پے درپے لندن سیکریٹریٹ سے جاری ہونے والے بیانات سے یہی لگتا ہے کہ الطاف حسین اب بھی ایم کیو ایم کے سربراہ ہیں اور پریس کانفرنس کا فیصلہ مشاورت سے کیا گیا۔
واسع جلیل کی جانب سے جاری بیان میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ فاروق ستار نے جو باتیں کیں مشاورت سے طے ہوئیں۔مصطفیٰ عزیز آبادی نے کہا کہ لندن اور پاکستان کے سیکریٹریٹ الگ ن ہیں ہیں اور متحدہ کے کنوینئر ندیم نصرت ہیں۔
ایک سوال جو اب اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا فاروق ستار نے لاتعلقی کا اظہار کر کے الطاف حسین کو بچایا؟ یاپھر یہ سب کچھ میئر انتخابات اور نائن زیرو سمیت ایم کیوایم کے دفاتر کھلوانے کے لئے کیا گیا؟
اس سوال کے جواب میں ایم کیو ایم کے ہی سینیٹر میاں عتیق نے کہا فاروق ستار نے جو کہا ہم اس کی تائید کرتے ہیں مگر ایم کیو ایم کے بانی الطاف بھائی ہی ہیں۔نسرین جلیل کہتی ہیں کہ الطاف حسین ایم کیوایم کے قائد اور بانی ہیں۔
پاک سرزمین پارٹی کے رہنما رضا ہارون کا کہنا ہے کہ فاروق بھائی نے پریس کانفرنس کا مقصد الطاف حسین کو غداری کے مقدمے سے بچانا ہے۔
دوسری طرف حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ قائد ایم کیو ایم کی طبعیت اگر خراب ہے بھی تو اس میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ کیوں نہیں لگتا۔ اگر قائد ایم کیو ایم کو سیاست جاری رکھنا ہے تو الفاظ کا چناؤ درست کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے آئین کے مطابق الطاف حسین کے پاس یہ ویٹو پاورموجود ہے کہ رابطہ کمیٹی کے کسی فیصلے کو ختم یا رد کریں اور وہ جماعت کے سپریم لیڈر ہیں ۔ وہ کسی کو جماعت سے نکال بھی سکتے ہیں اور رکھ بھی سکتے ہیں۔