کراچی کچھ اہم حقائق

کراچی کی اہمیت

کراچی معاشی سرگرمیوں کے سلسلے میں بھی یہی اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ پاکستان کی بیشتر کمپنیوں کے صدر دفاتر اسی شہر میں واقع ہیں۔ نیز کراچی میں تیس ہزار سے زائد چھوٹے بڑے صنعتی ادارے کام کررہے ہیں۔

شہر کی صنعت وتجارت سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ ان میں سے کئی لاکھ پاکستانی دیگر صوبوں سے آئے ہوئے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے واپس اپنے گھر پیسا بھجواتے ہیں۔ اسی رقم سے ان کے گھروں میں چولہا جلتا ہے۔ چناں چہ کراچی پاکستان بھر میں لاکھوں لوگوں کو پال رہا ہے۔

ایک رپورٹ کی رو سے کراچی میں ہر روز 50 تا 60 ارب روپے مالیت کی معاشی سرگرمیاں جنم لیتی ہیں۔ چنانچہ جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ جنم لینے سے ہنگامے پھوٹ پڑیں تو معاشی سرگرمی شدید متاثر ہوتی ہے۔

پچھلے چند برس سے بھتا خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا، تو کئی صنعت کار اور تاجر پنجاب یا بیرون ملک چلے گئے۔ مگر آپریشن کے بعد کراچی میں امن قائم ہوا، تو معاشی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔اس چلن میں بہتری آرہی ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کو ٹیکسوں کی صورت کراچی سے اربوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ مثلاً کسٹمز ڈیوٹیوں کا 75 فیصد اور درآمدت پر سیلز ٹیکس کا 79 فیصد کراچی ہی سے ملتا ہے۔ تاہم اہل کراچی کو شکایت ہے کہ صوبائی حکومت آمدن کا اتنا حصہ شہر کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ نہیں کرتی جتنا اسے خرچنا چاہیے۔ اسی لیے کہیں گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں تو کہیں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں۔

پاکستان رینجرز سندھ

1943ء کی بات ہے جب برطانوی ہند حکومت نے سندھ کے علاقے میں ’’سندھ رائفلز‘‘ کے نام سے ایک خصوصی فورس تشکیل دی۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی سرحد کی حفاظت اسی فورس کے ذمے لگائی گئی۔

پنجاب میں یہی کام نئی فورس،پنجاب ہوم گارڈز کے سپرد ہوا۔ 1971ء میں ان دونوں فورسز کے ادغام سے ’’پاکستان رینجرز‘‘ کا قیام عمل میں آیا

۔مارچ 1995ء میں پاکستان رینجرز کودو حصوں، پاکستان رینجرز سندھ اور پاکستان رینجرز پنجاب میں تقسیم کردیا گیا۔ صوبہ سندھ میں پاکستان رینجرز سندھ سرحدوں کی حفاظت اور اندرونی سلامتی کی اہم ذمے داریاں جانفشانی سے نبھا رہی ہے۔

پاکستان رینجرز سندھ نیم فوجی (پیرا ملٹری) فوج ہے۔ یہ کراچی میں تعینات کور 5 کے ماتحت ہے۔ اس کی کمان میجر جنرل کے سپرد ہوتی ہے۔

فی الوقت 25ہزار سے زائد رینجرز اس پیرا ملٹری فورس کا حصہ ہیں۔ ان میں سے نصف تعداد کراچی آپریشن میں شریک ہے۔ رینجرز کی جدوجہد و سعی سے کراچی میں حالات بہتر ہوئے ہیں۔

اسلحے کی فروانی

رینجرز آپریشن شروع ہوا، تو کراچی میں روزانہ بارہ تیرہ شہری اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے تھے۔ اکثر قتال کا تعلق بھتا خوری، ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ ورانہ فساد سے تھا۔ اس خوفناک صورت حال نے اسلحے کی فراوانی کے باعث ہی جنم لیا۔

ایک اندازے کے مطابق کراچی میں پندرہ سے بیس لاکھ چھوٹے بڑے ہتھیار موجود ہیں۔ اسلحے کا یہ انبار پچھلے پینتیس برس کے دوران ہی وجود میں آیا۔ اس اسلحے نے شہر میں سیاسی ،جرائم پیشہ اور مذہبی نوعیت کے مسلح گینگ تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

کراچی میں اسلحے کی اسمگلنگ کے کئی تیس سے زائد راستے اور طریقے ہیں۔ اسمگلر خشکی کے علاوہ سمندری اور فضائی راستے بھی اسلحہ شہر میں لانے کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔ رینجرز کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق کراچی میں جمع ’’75فیصد‘‘ اسلحہ غیر ملکی ہے۔

اس غیر ملکی اسلحے کی اکثریت افغانستان کے راستے خیبرپختونخوا یا بلوچستان پہنچتی ہے۔ پھر وہاں سے اسمگل ہوکر کراچی آتی ہے۔

ماضی میں بس اور ٹرک اسلحہ اسمگلنگ کا بڑا ذریعہ تھے۔ ان بسوں اور ٹرکوں میں خفیہ خانے بنے ہوتے جہاں اسلحہ چھپا دیا جاتا ۔ ان گاڑیوں کے مالکان انتظامیہ کو بھی بھاری رشوت دیتے تاکہ اسلحے کی اسمگلنگ بلارکاوٹ جاری رہے۔ رینجرز آپریشن کے ذریعے اس بھیانک چلن کی بیخ کنی کردی گئی۔

کراچی میں ٹی ٹی اور نائن ایم ایم پستولیں بہ حیثیت چھوٹا اسلحہ مقبول ہیں۔ ٹی ٹی پسٹل معیار کے لحاظ سے آٹھ تا پندرہ ہزار میں مل جاتی ہے۔ نو ایم ایم پستول، دس تا پچاس ہزار کی حد میں دستیاب ہے۔

بڑے ہتھیاروں میں اے کے۔47 اور کلاشنکوف کراچی کے مجرموں کا پسندیدہ اسلحہ ہے۔ رائفل کی یہ دونوں اقسام عموماً دہشت گرد اور بڑے جرائم پیشہ گروہ استعمال کرتے ہیں۔ ان رائفلوں کی قیمت لاکھوں روپے میں ہے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: