پاکستان کے علمی و ادبی اداروں کی مرحلہ وار موت

یاسر جواد

جن لوگوں کو یورپ یا یو کے جانے کا اتفاق ہوا ہے ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہو گی کہ انڈرگراؤنڈ ٹرینوں اور بسوں میں سفر کرنے والے عام لوگوں میں سے نہ کوئی شیکسپیئر پڑھ رہا ہوتا ہے اور نہ ہی کچھ اور ’سنجیدہ‘ کلاسیکی ادب۔ بلکہ ان کی نظریں عموماً اخبارات یا پلپ فکشن میں ہی گڑی ہوتی ہیں۔ مگر وہ اپنے بڑے ادیبوں اور اہل قلم کی میراث کو سنبھالنے اور آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے بڑے بڑے ادارے بناتے ہیں۔ یقیناً ان کا تعلق اکثریتی عوام سے نہیں ہوتااور نہ ہی براہ راست ان کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ تہذیب کا حافظہ ہیں اور معاشرے کی مجموعی فرزانگی اُنھی کی مرہونِ منت ہے۔ نسل پرستی سے نفرت کا رجحان ہو یا انسانی حقوق کی پاس داری، یا پھر جانوروں کے حقوق اور اسقاطِ حمل کے معاملات پر بحث یا تحفظِ ماحولیات سب میں منعکس ہونے والا شعور مستحکم اور منطقی علمی و ادبی روایات اور اداروں کی دین ہے۔

پاکستان بننے کے بعد، پہلے سے چلی آ رہی تھوڑی بہت صحیح الدماغی کی بدولت، شروع میں کچھ علمی و ادبی ادارے قائم ہوئے جو نظریۂ پاکستان کو استحکام ملتے جانے اور مذہبیت کا فروغ ہونے کے ساتھ درجہ بدرجہ زوال، انتشار اور بے عملی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ ان میں سے چند قابل ذکر ادارے مندرجہ ذیل ہیں:

1

  • مجلس ترقیِ ادب: مئی 1950ء میں حکومتِ مغربی پاکستان کے فیصلے کے مطابق ایک لاکھ روپے کی گرانٹ سے محکمۂ تعلیم کی نگرانی میں قائم ہوا۔ اس کا مقصد اردو زبان کی ترقی تھا۔ ابتدا میں اس کا نام مجلس ترجمہ تھا اور اسے مشرق و مغرب کی بلند پایہ علمی کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ کروا کے شائع کروانا تھا۔ موجودہ نام مجلس ترقیِ ادب 1954ء میں ملا۔ اس وقت یہ ادارہ حکومت پنجاب کے محکمہ اطلاعات و ثقافت کے تحت کام کر رہا ہے۔ امتیاز علی تاج، حمید احمد خان، احمد ندیم قاسمی، تحسین فراقی اور شہزاد احمد نے بھی اس کے ناظمین کے طور پر فرائض انجام دیے۔
  • ادارۂ ثقافت اسلامیہ: اسلامی علوم کا یہ خود مختار غیر سرکاری اشاعتی ادارہ لاہور میں 1950ء میں اس غرض سے قائم کیا گیا کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے مختلف پہلوؤں کا علمی و تحقیقی مطالعہ کیا جائے ۔ اس ادارے کے پہلے ناظم اعلیٰ خلیفہ عبدالحکیم تھے۔ مولانا محمد حنیف ندوی ، محمد رفیع الدین ، بشیر احمد ڈار ، رئیس احمد جعفری، شاہد حسین رزاقی اور ڈاکٹر وحید قریشی جیسے علما اس سے منسلک رہے۔ اس وقت قاضی جاوید اس کے سربراہ ہیں۔
  • 2اردو سائنس بورڈ: 1962ء کی ابتدائی قرار داد کے مطابق مرکزی اردو بورڈ کا بنیادی کام قومی اقدار کو فروغ دینا اور اردو زبان کو اس سطح تک ترقی دینا تھا کہ یہ تعلیم کے اعلیٰ مدارج پر ذریعۂ تعلیم بننے کے قابل ہو سکے۔ 2008ء میں کچھ ترامیم کے بعد اس کے مقاصد میں سائنس، ریاضی، ٹیکنالوجیز کے میدان میں اردو زبان کی کمیوں کو دور کرنا اور ان مضامین پر تعلیمی مواد تیار کرنا بھی ہے۔ حنیف رامے، اشفاق احمد، غلام ربانی آگرو، کشور ناہید، آغا سہیل، اور امجد اسلام امجد بھی اس کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
  • 3اکادمی ادبیات پاکستان: پاکستانی زبانوں کے فروغ کا یہ ادارہ 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کیا۔ پریشان خٹک، غلام ربانی آگرو، افتخار عارف، خاطر غزنوی، شفیق الرحمن اور فخر زمان اس ادارے میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے۔ آج کل اس کے چیئرمین تمغۂ حسن کاکردگی یافتہ قاسم بگھیو ہیں۔
  • ادارہ فروغ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان): حکومت پاکستان کی وزارت کابینہ ڈویژن کے ماتحت ادارہ ہے جس کا نصب العین ملک میں اردو زبان کی ترویج ہے۔ اس ادارہ کا قیام 4 اکتوبر 1979ء کو عمل میں آیا تاکہ قومی زبان ‘اردو’ کے بحیثیث سرکاری زبان نفاذ کے سلسلے میں مشکلات کو دور کرے اور اس کے استعمال کو عمل میں لانے کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرے، نیز مختلف علمی، تحقیقی اور تعلیمی 4اداروں کے مابین اشتراک و تعاون کو فروغ دے کر اردو کےنفاذ کو ممکن بنائے۔ جمیل جالبی، فتح محمد ملک، افتخار عارف وغیرہ کو اس ادارے کی سربراہی کا موقعہ ملا۔

ان اداروں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کے مراسلوں میں انگلش کی بجائے اردو اعداد لکھے جاتے ہیں۔ کئی دس سال قبل تو ای میل ایڈریس بھی اردو میں لکھنے کی کوشش کی گئی۔ وہ الگ بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کی اپنی سرکاری ویب سائیٹس انگلش زبان میں ہیں۔

ان کے حجم اور وسائل کو سامنے رکھ کر اگر ان کے کیے ہوئے کاموں کا جائزہ لیا جائے تو بہت ہی بھیانک شکل سامنے آتی ہے۔ ان کا ایک پراجیکٹ بھی ایسا نہیں جو موجودہ الیکٹرانک دنیا سے موافقت رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر کلاسیکی شعرا کا کلام تک الیکٹرانک صورت میں فراہم نہیں کیا جا سکا۔ ان اداروں کے دفاتر میں ڈوری والے فولڈر اور کاغذات کو نتھی کرنے والے دھاگے مجموعی ذہنیت اور قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بلکہ اگر کہا جائے کہ طباعت اور کتاب سازی میں ہونے والی ترقی کو مسترد کرنے میں جتنا ہاتھ پاکستان کے ادبی و علمی اداروں کا ہے وہ اور کسی کا نہیں ہو سکتا۔ اپنی اغراضِ قیام کے حوالے سے بھی انھوں نے کوئی قابل قدر خدمت انجام نہیں دی۔

اکادمی ادبیات کو ہی لیجیے۔ اس کے موجودہ چیئرمین قاسم بگھیو (جنھوں نے اپنے ہی ادارے کی بدولت حال ہی میں خود کو تمغۂ حسن کارکردگی دلوایا ہے) نے اہل قلم کو دی جانے والی سہولیات میں نمایاں کمی کی ہے۔ ان کا سب سے بڑا اقدام کتابوں پر دی جانے والی رعایت کو پچاس فیصد سے درجہ بدرجہ کم کر کے 20 فیصد پر لے آنا اور رائٹرز ہاؤس کا یومیہ کرایہ تقریباً دوگنا کر دینا ہے۔ ان کی سب سے بڑی مصروفیت وفات پانے والے اہل قلم کے جنازوں میں شرکت ہے۔ 2013ء ،ہم اکادمی کے تحت ایک اہل قلم کانفرنس منعقد کی گئی جس کے دعوت ناموں کے حصول کی خاطر اہل قلم اس قدر لڑے جھگڑے کے ادارے نے پانچ سو کے قریب دعوت نامے جاری کر دیے۔ کانفرنس ہال میں صرف اڑھائی سو افراد کی گنجائش ہونے کے سبب آدھے شعرا کرام اور ادیب حضرات سڑک باہر ہی بیٹھے۔ چیئرمین اکادمی نے جاری سال کے آغاز میں ایک اور عالیشان کانفرنس کروانے کا پروگرام اعلان کیا تھا اور حتمی تاریخیں بھی ویب سائیٹ پر جاری کر دیں، لیکن یہ کانفرنس دو بار ملتوی ہو چکی ہے۔ یقیناً تمغۂ حسن کارکردگی کی تحصیل ممکن بناتے وقت قاسم بگھیو صاحب نے ان سبھی باتوں کا ذکر کیا ہو گا!

ایک اور دلچسپ بات یہ کہ ’’پاکستانی زبان‘‘ پنجابی کے فروغ کے لیے قائم شدہ ادارہ پنجابی ادبی بورڈ بھی اکادمی ادبیات کے ماتحت ہے اور اِسے اپنے فنڈز بھی اکادمی کے توسط سے ہی ملتے ہیں۔ پنجابی ادبی بورڈ کو اپنے نگران ادارے کی جانب سے ملنے والی کل سالانہ رقم صرف تین لاکھ ہے۔ بلاشبہ اکادمی کے کسی ڈرائیور کی کل سالانہ تنخواہ بھی اس سے زیادہ ہو گی۔ پنجابی ادبی بورڈ کو اپنے دفتر کے لیے مجلس ترقی ادب سے ایک کمرہ ادھار لینا پڑا، حالانکہ مجلس خود نظریہ پاکستان کے تجاوزات کے خلاف برسوں مقدمہ لڑتی رہی جس نے اس کی نہایت مہنگی زمین پر راتوں رات قبضہ کر لیا تھا۔

رہا مقتدرہ قومی زبان عرف ادارۂ فروغ اردو کا معاملہ تو یہ ادارہ برسوں سے اپنی اشاعتی سرگرمیاں معطل کیے بیٹھا ہے، کئی سال سے اس کا کوئی صدر نشین نہیں اور دیگر عہدیدار گرانٹ کی منظوریوں کے لیے زیادہ تر وقت متعلقہ وزارتوں میں گزارتے ہیں۔ اسے سب سے زیادہ نقصان ڈاکٹر انوار احمد کے عہد میں پہنچا جنھوں نے ادارے کے جریدے میں مالیوں اور ڈرائیوروں کے انٹرویو شائع کرنے اور وزراء کو اس رسالے کا سالانہ خریدار بنانے پر ہی توجہ دی، یا پھر ملتان سے تعلق رکھنے والے کچھ ادیبوں کی نگارشات شائع کیں۔

اردو سائنس بورڈ تو ایک عرصہ ہوا اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے۔ ادارۂ ثقافت اسلامیہ اور مجلس ترقی ادب بھی عشروں پہلے شائع کی ہوئی کتابوں کی جگالی تک ہی محدود ہیں۔

ان اداروں کی املاک اور کل اخراجات کو تصور میں لانا بھی مشکل ہے۔ بلاشبہ ان کی عمارات اربوں روپے کی ہیں اور تنخواہوں کی مد میں سالانہ اخراجات حیرت انگیز تک زیادہ ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں ان کے کاموں کا موازنہ تو اردو بازار کے کسی چھوٹے سے پبلشر کے ساتھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

عموماً حکومت تبدیل ہوتے ہی ان اداروں کے سربراہوں میں تبدیلی آ جاتی ہے اور یہ سربراہ باقی عرصہ اپنی نوکری کو پکا کرنے یا ایکسٹنشن حاصل کرنے کی کوششوں میں ہی صرف کرتے ہیں۔ چند سال قبل تو پاکستان پوسٹ میں خدمات انجام دینے والے ایک بیوروکریٹ کو اکادمی چیئرمین لگایا گیا تھا (جس کا بھائی بارسوخ صحافی تھا)، اور اسی طرح نیشنل بک فاؤنڈیشن بھی ایک بیوروکریٹ کی زد میں رہا۔

اقربا پروری، علم و ادب سے قطعی بیگانگی بلکہ بیزاری، اہل قلم کے لیے تحقیر و تضحیک، محض ’’نوکری کرنے‘‘ کا نصب العین ان اداروں کے غیر فعال اور قریب مرگ ہونے کی بدیہی وجوہات ہیں۔ اگر یہ ادارے نہ رہے تو یقیناً اس کی ذمہ داری ان افراد پر عائد ہو گی جو اس کے سربراہ رہے اور انھیں درجہ بدرجہ غیر فعالیت کی جانب جاتا دیکھتے رہے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: